مشرقی پاکستان کو جداہوئے نصف صدی سے زائدعرصہ بیت چکالیکن ہماری حالت وہی ہے جسے شاعر نے ان الفاظ میں بیان کیاہے کہ ؎
تمھاری یادکے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمھیں یادکرنے لگتے ہیں
سولہ دسمبر تومشرقی پاکستان کو یادکرنے کا بہت بڑاحوالہ ہے۔ بعض نام نہاد دانشور المیہ مشرقی پاکستان کے اسباب تلاش کرتے ہوئے بے چاری مظلوم اردوکو بھی اس میں گھسیٹ لاتے ہیں …… اردوجسے اپنے گھر میں بھی اپنی جگہ نہ ملی۔کہاجانے لگاہے کہ قائداعظم محمدعلی جناح اگر ۱۹۴۸ء میں ڈھاکہ میں اردوکے پاکستان کی قومی زبان ہونے کا اعلان نہ کرتے تو المیہ مشرقی پاکستان رونمانہ ہوتا۔ہماری دانست میں ایساکہنا حقائق کو ان کی اصل صورت میں دیکھنے سے انکارکے مترادف ہے۔قائداعظم کی ڈھاکہ میں کی گئی تقریروں کو پڑھاجائے تو صحیح صورت حال خودبخود واضح ہوجاتی ہے۔۲۱مارچ ۱۹۴۸ء کوڈھاکہ کے جلسہ عام سے خطاب کے دوران، زبان کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے قائداعظم نے پہلے اردوکی نہیں بنگالی کی بات کی تھی اور وہ اس معاملے میں بالکل واضح تھے کہ صوبائی زبانوں کوان کامقام ملناچاہیے تاہم وہ صوبائیت کے خلاف تھے اور انھوں نے لسانی بنیادوں پرانسانوں میں تفریق کرنے والے عناصر کو تیرہ سو سال قبل بلندہونے والی صدائے وحدت یاددلاتے ہوئے پست صوبائیت سے بلندہونے کی تلقین کی تھی۔ ان کا کہناتھا کہ جوکوئی آپ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتاہے وہ آپ کا دشمن ہے۔انھوں نے علاقائی زبان کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے مختلف زبانیں بولنے والے خطوں میں ایک مشترک زبان کی ضرورت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا تھاکہ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحدنہیں ہوسکتی اور نہ کوئی کام کرسکتی ہے۔دوسرے ملکوں کی تاریخ اٹھاکردیکھ لیجیے۔ قائداعظم کے واشگاف الفاظ آج بھی تاریخ کے دامن میں محفوظ چلے آرہے ہیں۔وہ زبان کو زندگی کاایک اہم مظہرتسلیم کرتے ہوئے بنگالی عوام کے اس حق کو تسلیم کرتے ہیں کہ اپنے صوبے کی زبان طے کرنے کا اختیارصرف انھی کو ہے۔ قائداعظم نے فرمایا:
”آیاصوبے کی سرکاری زبان بنگالی ہوگی اس معاملے کا فیصلہ کرناصوبے کے عوام کے منتخب نمائندوں کاکام ہے۔مجھے اس امرمیں کوئی شبہ نہیں کہ اس معاملے کا فیصلہ عین عوامی خواہشات کے مطابق مناسب وقت پر ہوگا۔مجھے اس امرکی واشگاف الفاظ میں وضاحت کرنے دیجیے کہ ان افواہوں میں کوئی صداقت نہیں کہ آپ کی روزمرہ زندگی میں کوئی خلل پیداکیاجائے گا
جہاں تک بنگالی زبان کا تعلق ہے تو اس امرکا فیصلہ آپ کویعنی صوبے کے عوام کوکرناہے کہ آپ کے صوبے کی زبان کیاہوگی“۔
صوبوں کی زبانوں کو تسلیم کرتے ہوئے اس حقیقت سے انکارنہیں کیاجاسکتاکہ کوئی بھی قوم ہو ان کے درمیان رابطے کے لیے کسی ایک زبان کی بہ ہر حال ضرورت ہوتی ہے جسے ملک کے تمام خطوں میں سمجھاجاسکتاہو۔مختلف اکائیوں کے ایک مجموعے کی حیثیت سے پاکستان کے مختلف علاقوں کی اپنی اپنی علاقائی زبانیں تھیں جنھیں اب قومی زبانیں کہاجانے لگاہے۔قیام پاکستان کے وقت بھی مختلف علاقوں میں مختلف زبانیں رائج تھیں؛ مشرقی پاکستان میں بنگالی،پنجاب میں پنجابی، سندھ میں سندھی، بلوچستان میں بلوچی،خیبرپختونخوا(تب شمال مغربی سرحدی صوبہ)میں پشتو نیزدیگرعلاقائی زبانیں۔ان زبانوں کی اپنی اپنی تاریخ اور روایات ہیں لیکن ان میں سے کوئی زبان بھی پورے پاکستان میں اس حدتک سمجھی نہیں جاتی تھی کہ اسے تمام خطوں کے درمیان رابطے کی زبان بنایاجاسکتا۔یہ کام صرف اردوانجام دے سکتی تھی جو نظر بظاہر پاکستان میں شامل خطوں میں سے کسی خطے کی مخصوص زبان نہیں تھی لیکن اپنی نہاد میں پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانوں کے ساتھ ایسا لسانی اشتراک رکھتی ہے کہ اس کا ذخیرۂ الفاظ کسی بھی زبان کے لیے اجنبی نہیں اور پاکستان کی تمام زبانوں کے حاملین کے لیے اس میں اپنائیت کے عناصرموجودہیں۔ مختلف جغرافیائی وحدتوں کو یکجا کرنے کے لیے لسانی سطح پر جس یگانگت کی ضرورت ہوتی ہے یہ خدمت اردوسے بڑھ کرکوئی دوسری زبان انجام نہیں دے سکتی تھی۔ اس لیے قائداعظم محمدعلی جناح نے بجاطورپر صوبائی زبانوں کی اہمیت کو تسلیم کرنے کے بعد اس قومی ضرورت کی جانب توجہ مبذول کی انھوں نے ۲۴مارچ ۱۹۴۸ء کو ڈھاکہ یونی ورسٹی کے جلسہ عطائے اسنادسے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
اس صوبے میں دفتری استعمال کے لیے اس صوبے کے لوگ جوزبان بھی چاہیں منتخب کرسکتے ہیں یہ مسئلہ خالصتاً فقط اس صوبے کے لوگوں کی خواہشات کے مطابق حل ہوگا البتہ پاکستان کی سرکاری زبان جو مختلف صوبوں کے درمیان افہام و تفہیم کا ذریعہ ہوصرف ایک ہی ہوسکتی ہے اوروہ اردوہے اردوکے سواکوئی دوسری زبان نہیں ہوسکتی۔
وطن عزیزکے نزدیکان بے بصر نے بانی پاکستان کے اس اعلان پرانھی کو مطعون کرناشروع کردیاہے۔یہ بھی پروپیگنڈے کی تکنیک کی کامیابی کا ایک مظہر ہے۔کہاجانے لگاہے کہ اس اعلان سے بنگالی قومیت کے احساس کوزک پہنچی جو بالآخر مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر منتج ہوئی۔ نزدیکان بے بصر نے اس پہلو پر غورنہیں کیاکہ ان کی رائے قیام پاکستان کے وقت اور اس کے بعد پڑوسی ملک کی جانب سے مشرقی بنگال میں کیے جانے والے پروپیگنڈے سے متاثر ہوئی ہے۔ اس پروپیگنڈے کی کئی سطحیں تھیں، زبان کے مسئلے پر بھی بنگالی عوام کو یہ یقین دلایاگیاکہ اگر اردو نافذہوگئی تو مشرقی پاکستانی عوام کا استحصال ہوگا وہ مغربی پاکستان کے غلام بن کررہ جائیں گے ان کی تاریخ و ثقافت گم ہوجائے گی وغیرہ وغیرہ۔
جن لوگوں نے یہ پروپیگنڈاکیاان کے تو اپنے مذموم مقاصد تھے لیکن وطن عزیزکے نزدیکان بے بصر یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ اگربنگالی کو قومی زبان قرارنہ دیے جانے سے بنگالی قومیت کو خطرہ لاحق ہورہاتھا توبنگال کاایک حصہ ہندوستان میں بھی تو تھا۔۱۹۴۷ء میں متحدہ بنگال کی دستورسازاسمبلی اور بنگالی عوام کی خواہشات کے مطابق بنگال دوحصوں میں تقسیم ہوا۔ ہندو اکثریت والا حصہ مغربی بنگال کے طورپرہندوستان سے اور مسلم اکثریت کا حصہ مشرقی بنگال یا مشرقی پاکستان کے طور پر پاکستان سے مل گیا۔ ان دونو خطوں کی زبان بنگالی تھی۔ اگر مشرقی بنگال یامشرقی پاکستان کے بنگالی عوام کے لیے زبان ایک جذباتی مسئلہ تھا تو مغربی بنگال کے بنگالی کیااس جذبے سے واقف ہی نہیں تھے؟ مشرقی بنگال میں بنگالی کو اس کا جائز مقام دیتے ہوئے ملکی سطح پر رابطے کی زبان اردوکو قراردینا بنگالی قومیت پر حملہ تھاتو مغربی بنگال میں یہ سوچ کیوں پیدانہیں ہوئی؟مغربی بنگال میں تو آج تک بنگالی نافذ نہیں ہوئی جب کہ پاکستان نے تو بعدازخرابی ہی سہی ۱۹۵۶ء کے دستورمیں بنگالی کو اردوکے برابردرجہ دیتے ہوئے پاکستان کو دوقومی زبانوں کا ملک قرارادے دیاتھا ……سوال یہ ہے کہ آخروہاں کے بنگالیوں کو ہندوستانی زبان اور رسم الخط سے کیوں خطرہ محسوس نہیں ہوا؟وہاں بنگالی پر دوسری زبانوں کی برتری کیسے تسلیم کرلی گئی؟وہاں تو کبھی بنگالی کو قومی زبان قراردینے کا مطالبہ نہیں کیاگیا۔ اس لیے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب تلاش کرتے ہوئے اردویاقائداعظم کو مطعون کرنے کا کوئی جوازنہیں۔علیحدگی کے اسباب متعدد ہیں اور ہمیں علیحدگی کے اسباب کاتجزیہ کرتے ہوئے حقیقی اسباب کو مدنظررکھناچاہیے۔جہاں تک حقیقی اسباب کا تعلق ہے تو قائداعظم کی محولہ بالا تقریر میں ان کی جانب اشارہ موجود ہے۔ قائداعظم نے اپنے اندرموجود ففتھ کالمسٹوں سے بچنے کی تلقین کی تھی۔انھوں نے نوجوان نسل سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھاکہ آپ اپنے ساتھ، اپنے والدین کے ساتھ اور اپنے ملک کے ساتھ مخلص ہوجائیں۔خود غرض لوگوں سے بچیں، جو اپنے مقاصد کے لیے آپ کو استعمال کرناچاہتے ہیں۔ انھوں نے ریاست کے ایسے بے لوث خدمت گاروں کی بات کی تھی جو اپنے دل اور روح کے ساتھ ریاست کی خدمت انجام دیں۔ ……کاش ہم نے اس پر غور کیا ہوتا۔