تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کل شام لبرٹی میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اسمبلیاں (یا ممکنہ طور پر صرف پنجاب اسمبلی) توڑنے کی تاریخ دے دیں گے جو اسی مہینے کی کوئی دوسری تاریخ ہوسکتی ہے۔عمران خان چاہتے ہیں کہ صوبائی اسمبلیاں ٹوٹنے سے ایک ایسا ماحول بن جائے جس میں وفاقی حکومت دباو میں آجائے اور قومی اسمبلی کی اگلے برس اگست کے وسط میں پوری ہونے والی مدت سے پہلے ہی عام انتخابات کا اعلان کردے۔ سیاست اس وقت مکمل طور پرا عصاب کا کھیل بنی ہوئی ہے اور حکمران اپریل میں اقتدار سنبھالنے کے بعداس کے دو مرحلے بہت اچھا کھیلتے ہوئے جیت چکے ہیں۔ پہلا مرحلہ احتجاج کاتھا جو راولپنڈی میں ایک ناکام بلکہ ٹھس لانگ مارچ سے جیتا گیا۔ عمران خان اور ان کے ساتھی سمجھتے تھے کہ عوام کی اتنی بڑی تعداد نکل آئے گی کہ حکمرانوں کے لئے اپنے ایوان بچانا مشکل ہوجائے گا مگر عملی طور پر یہ ہوا کہ پی ٹی آئی والے پنجاب کی سرحد ہی پار نہ کرسکے،اس پنجاب کی سرحد جس کی حکومت انہیں باجوہ صاحب نے عطا کی تھی۔ حکمرانوں نے دوسرا مرحلہ اس کے ساتھ ہی اس وقت سر کیا جب عمران خان بہرصورت پاک فوج کے سربراہ کی تقرری کو متنازع بنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے ایک روز پہلے اعلان کیا کہ وہ اور صدر مملکت اس پر کھیلیں گے اور یہ کہ وہ سمری روک سکتے ہیں مگر جب سمری آئی تواسلام آباد میں بیٹھے صدر علوی کے ساتھ ساتھ زمان پارک میں بیٹھے عمران خان کے اعصاب بھی جواب دے گئے۔ صدر علوی مشاورت کے نام پر جب لاہور پہنچے تو اب تک کی تردید نہ ہونے والی اطلاعات کے مطابق سمری پر دستخط کر کے آئے تھے اور عمران خان جس کھیل کی بات کر رہے تھے وہ اس کو شروع کرنے کی بھی ہمت نہیں کرسکے۔
اب جناب عمران خان نے کھیل کا دوسرا مرحلہ شروع کیا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنی شہ رگ کاٹوں گا اور دیکھوں گا کہ تم اس بہتے ہوئے خون کو دیکھ کر کب تک اپنے آنسو روک سکتے ہو۔ کڑواسچ تو یہ ہے کہ وہ پی ڈی ایم کی حکومت سے استعفے لینے گئے تھے اور اپنی حکومتوں کو توڑنے کا اعلان کر کے واپس آ گئے تھے۔ میری اگر سامنے والے گھر کے مکینوں سے لڑائی ہے تو مجھے بتائیں کہ اگر میں اپنا گھر غصے میں گرا دوں تو انہیں کیا فرق پڑے گا۔ یہ بات درست ہے کہ شروع شروع میں نوا زلیگ کچھ گھبرائی تھی مگر جب انہوں نے ٹھنڈے پانی کے کچھ گلاس پئیے، ان کے کچھ سیانے سر جوڑ کے بیٹھے تو انہیں انداز ہ ہوا کہ وہ اس ایک ایسے شخص سے ڈ ررہے ہیں جو اپنے ہی منہ پر’گھسن‘ مار کے ان کے دانت توڑنے کا دعویٰ کر رہا ہے۔ وہ بہت ہنسے، بولے، مار گھسن توڑ دانت، دیکھیو کوئی بچے نہ، سارے ہی توڑ ڈال۔
یہ اس سے زیادہ مضحکہ خیز صورتحال ہے جتنی آپ سمجھ رہے ہیں۔ فرض کریں کہ اگلے ایک سے دو ہفتوں میں عمران خان کی ہدایت پر پنجاب اسمبلی ٹوٹ جاتی ہے کیونکہ ان کا مطالبہ نئے انتخابات ہیں اور اس طرح وہ آدھے سے زیادہ پاکستان میں نئے انتخابات کی راہ ہموار کر دیتے ہیں مگر ایک لمحے کو ٹھہریں۔ عمران خان تو موجودہ چیف الیکشن کمشنر بلکہ پورے الیکشن کمیشن سے ہی نالاں ہیں۔ وہ اسے حکمرانوں کا ایجنٹ سمجھتے ہیں جس نے فارن فنڈنگ اور توشہ خانہ کیسوں میں ان کے خلاف فیصلے دئیے۔ اب انتخابات ہونے ہیں اور اسی الیکشن کمیشن نے کروانے ہیں۔ عمران خان کہتے ہیں کہ وہ اس الیکشن کمیشن کے تحت انتخابات کو نہیں مانیں گے حالانکہ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اپنی وفاقی حکومت اور پھر صوبائی حکومت بھی کھونے کے بعد اسی الیکشن کمیشن کے کروائے ہوئے ضمنی انتخابات میں انہوں نے واضح اکثریت حاصل کی، بھاری تعدادمیں نشستیں جیتیں۔ الیکشن کمشنر کا عہدہ ایک آئینی عہدہ ہے اورالیکشن کمیشن کو پارلیمنٹ سے باہر ناچتی کودتی جماعت تو کیا ملک کا وزیراعظم بھی اپنی مرضی سے نہیں ہٹا سکتا۔ الیکشن کمیشن کو ہٹانے کا راستہ بہت مشکل ہے اور اگر کوئی راستہ نکل سکتا ہے تو وہ پارلیمنٹ سے ہی نکل سکتا ہے مگر عمران خان وہاں جانے اور بات کرنے کے لئے تیار نہیں حالانکہ وہ الیکشن کمشنر تو ایک طرف رہا، نیب کے چئیرمین کی تقرری سے انتخابی اصلاحات تک سب کچھ پارلیمنٹ سے ہی حاصل کر سکتے ہیں۔
چلیں، کچھ پریکٹیکل ہوکے بات کرتے ہیں کہ اب جناب عمرا ن خان کی امیدیں آرمی چیف سے ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ فوج کے سربراہ حافظ قرآن ہیں اور وہ امر بالمعروف سے کام لیں گے۔ ان کے مطابق صرف ان کا امر ہی معروف ہے حالانکہ یہ بات تو بچے بچے کو علم ہے کہ جب انہی حافظ قرآن نے بطور ڈی جی آئی ایس آئی امر بالمعروف سے کام لیا تھا تو عمران خان نے انہیں عہدے سے ہی ہٹا دیا تھا اور اسے اپنے لئے بہت ہی فیض والا بنا لیا تھا۔ بہت سارے دوست ہنستے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ عمران خان نے جو کچھ جنرل قمر جاوید باجواہ کے ساتھ کیا ہے حالانکہ یہی وہ صاحب تھے جنہوں نے عمران خان کو حقیقی فیض دیا جس نے جنوبی پنجاب سمیت ملک بھر میں ان کے لئے الیکٹ ایبلز اکٹھے کئے۔ ایم کیو ایم اور باپ جیسی سیاسی جماعتوں کو عمران خان کی گود میں بٹھایا جنہیں وہ ماضی میں وہی کچھ کہتے رہے تھے جو وہ سب کو کہتے ہیں۔ عمران خان نے اس محسن کے ساتھ کیا کیا کہ اب کوئی عمران خان پر احسان کرنے کے رسک لے گا۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ ان کی عوام میں مقبولیت اتنی ہوچکی کہ وہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ واپس آجائیں گے اور مجھے کہنے دیجئے کہ یہی سب چار، ساڑھے چار برس پہلے سب سے تجربہ کار سیاستدان نواز شریف سمجھتے تھے۔ انہوں نے ایوان وزیراعظم سے نکلنے کے بعد عمران خان جیسا ٹھس مارچ نہیں کیا تھا بلکہ وہ جی ٹی روڈ کی ایک تاریخی ریلی تھی۔ نواز شریف سمجھتے تھے کہ اگر وہ اپنی دم توڑتی ہوئی بیوی کو چھوڑ کے اپنی بیٹی کے ساتھ واپس لوٹیں گے تو عوام کراچی سے خیبر تک شیر کے نشان سے ووٹوں کی صندوقچیاں بھر دیں مگر ہوا کیا، نواز لیگ کو نہ مرکز ملا نہ پنجاب بلکہ جیلیں ملیں، صعوبتیں ملیں۔
عمران خان جو مکا مارنا چاہ رہے ہیں دیکھیں کہ کہیں اس مکے کا رخ کہیں ان کے اپنے منہ کی طرف تو نہیں ہے۔ وہ بلائینڈ کھیل رہے ہیں اور اس کھیل کے بہت نقصانات ہوتے ہیں۔ ایسے جواری دیوالیہ ہوجاتے ہیں اوربہت پیاری چیزیں بھی ہار جاتے ہیں۔ اب ان کے ساتھ کوئی اسٹیبلشمنٹ نہیں ہے۔ اب ان کے لئے الیکٹ ایبلز لانے والا کوئی نہیں ہے۔ اب ان کے لئے آر ٹی ایس بٹھانے والا کوئی نہیں ہے۔ اب ان کے لئے اتحادیوں کابندوبست کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اب ان کے مخالفین کوجیلوں میں بند کر کے ان کے ہاتھ پاوں باندھنے والا کوئی نہیں ہے۔ ایسے میں وہ گھسن مارنا چاہتے ہیں اور دانت توڑنا چاہتے ہیں تو ماریں گھسن، اپنا ہی منہ زخمی ہوگا، اپنے ہی دانت ٹوٹیں گے، کسی کا کیا جائے گا اور فرض کریں کہ اگر انہوں نے دوبارہ جیت کے پنجاب میں حکومت بنا بھی لی تو کسی کو کیا فرق پڑے گا سوائے چوہدری پرویز الٰہی کے جن کی وزارت اعلیٰ داو پر لگ جائے گی۔