محمود اختر خان:
قرآن کریم ہی سے دو قومی نظریہ اخذ کیا گیا ہے۔قائداعظم محمد علی جناحؒ کا قرآن کریم کے بارے میں ایسا ہی عقیدہ تھا جو ایک راسخ العقیدہ مسلمان کا ہے۔ قائداعظمؒ کا اس ’’نورہدایت‘‘ سے اپنا دامن بھرا ہوا تھا۔ ان کا ہر ہر عمل اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ انہوں نے قرآن پاک کو واقعتاً رہنما بنا لیا تھا۔ گویا ان کی زندگی میں قرآن پاک کا حیات آفریں پیغام رچابسا تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ یہ نسخۂ کیمیا ہی مسلمانوں کی تقدیر بدل دینے کی قوت رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ مرتے دم تک قرآنی نظام کی بالادستی پر نہایت زبردست اور مستحکم عقیدہ رکھتے تھے۔
آیئے دیکھیں انہیں قرآن کریم سے کس طرح والہانہ محبت تھی اور انہیں کس درجہ قرآن فہمی کا ذوق تھا:
قائداعظمؒ نے عیدالفطر نومبر 1939ء کے موقع پر بمبئی میں فر مایا: ’’مسلمانو! ہمارا پروگرام قرآن پاک میں موجود ہے، ہم مسلمانوں کو لازم ہے کہ قرآن پاک کو غور سے پڑھیں۔ قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کرسکتی‘‘۔
(عبدالرحمن خان، منشی: ’’قائداعظمؒ کا مذہب اور عقیدہ‘‘ (مطبوعہ لاہور، 1986ء) صفحہ 193)
اگست 1941ء میں قائداعظمؒ جب حیدر آباد دکن تشریف لے گئے تو عثما نیہ یونیورسٹی کے طلباء نے ان سے کچھ سوالات پوچھے۔ ان کے جواب میں انہوں نے جو کچھ کہا، وہ ان کی قرآن فہمی کی روشن دلیل ہے۔ یہاں صرف ایک اقتباس ملاحظہ فرمایئے:
’’میں نے قرآن مجید اور قوانینِ اسلامیہ کے مطالعے کی اپنے طور پر کوشش کی ہے، اس عظیم الشان کتاب کی تعلیمات میں انسانی زندگی کے ہر باب کے متعلق ہدایات موجود ہیں، زندگی کا روحانی پہلو ہو یا معاشرتی، سیاسی ہو یا معاشی، غرض کہ کوئی شعبہ ایسا نہیں جو قرآنی تعلیمات کے احاطے سے باہر ہو۔ قرآن کریم کی اصولی ہدایات اور طریق کار نہ صرف مسلمانوں کے لیے بہترین ہے بلکہ اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کے لیے حسنِ سلوک اور آئینی حقوق کا جو حصہ ہے اس سے بہتر تصور ناممکن ہے‘‘۔
(سردار محمد خان: ’’حیاتِ قائداعظمؒ‘‘ (مطبوعہ لاہور) صفحہ 227)
1942ء میں دہلی میں اورنگزیب روڈ پر قائداعظمؒ کی کوٹھی پر ایک عالم دین مولانا منورالدین ان سے ملنے آئے۔ان کے پاس نمونے کے طور پر قرآن مجید کے احکامات کی تشریح کے چند اوراق تھے۔ کہنے لگے:
’’میں نے قرآن مجید کے تمام واضح احکامات جو محکمات کا درجہ رکھتے ہیں۔ قوانین کی صورت میں 50 ابواب مرتب کیے ہیں‘‘۔ قائداعظمؒ نے فرمایا: ’’مثلاً کس طرح؟‘‘
مولانا فرمانے لگے: ’’ہرباب کا عنوان جدا ہے۔ قرآن مجید کی متعلقہ آیات اس عنوان کے تحت دج کر دی گئی ہیں اور ان سے قوانین اخذ کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کتاب الصلوٰۃ کے اوراق ہیں۔ یہ کتاب الذکوٰۃ کے ، اس باب میں نکاح کے احکامات ہیں‘‘۔
اس پر قائداعظمؒ نے نہایت مسرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
’’آپ کی یہ کوشش قابل در ہے۔ آپ نے بروقت ایک صحیح قدم اُٹھایا ہے جس کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ اسلام زندگی کا مکمل ضابطہ دیتا ہے اور زندگی کے ہر مرحلے میں ایک مسلمان کی رہنمائی کرتا ہے۔آپ کا کام قومی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر میں کسی ملک کا سربراہ ہوتا تو میں قانون دانوں کی ایک کمیٹی مقرر کر کے آپ کی کتابوں پر ان کی رپورٹ طلب کرتا اور اس کمیٹی کی سفارش پر اس کو بطور ضابطہ قانون کے نافذ کر دیتا۔ فی الحال آپ اسلامی ملکوں کے سربراہوں کو ان کی ایک ایک کاپی بھیج دیں‘‘۔
(سعید راشد پروفیسر: ’’گفتارو کردار قائداعظم‘‘ (مطبوعہ لاہور، 1986ء) صفحہ 483) ۔ 1943ء میں مسلم لیگ کے کراچی اجلاس میں آپ نے نہایت خوبصورت انداز میں فرمایا:’’وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسدِ واحد کی طرح ہو جاتے ہیں؟ وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کون سا لنگر ہے جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کردی گئی ہے؟، وہ رشتہ … وہ چٹان… وہ لنگر … خدا کی کتاب قرآن مجید ہے … ایک خدا … ایک رسولﷺ … ایک اُمت‘‘۔
(پروفیسر سعید راشد، گفتار وکردار قائداعظمؒ‘‘ (مطبوعہ لاہور، 1986ء) صفحہ 213)
اواخر 1943ء میں میاں بشیر احمد، 10اورنگزیب روڈ پر دہلی میں قائداعظمؒ سے ملاقات کے لیے گئے اور اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے: ’’سر! مسلمانوں کی موجودہ حالت اور ان کے افتراق کو دیکھا جائے تو سخت مایوسی ہوتی ہے۔ آگے کا بھی اللہ ہی مالک ہے‘‘۔
قائد اعظمؒ نے قریب کی میز پر رکھے ’’قرآن حکیم‘‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہمیں پریشان یا مایوس ہونے کی کیا ضرورت ہے جب کہ یہ کتاب ہماری رہنمائی کے لیے ہمارے پاس موجود ہے‘‘۔ (پروفیسر سعید راشد، گفتار وکردار قائداعظمؒ‘‘ (مطبوعہ لاہور، 1986ء) صفحہ 129) قرآن کریم کی تلاوت اور اس کی آیتوں پر غوروفکر کرنا اور پھر ان پر عمل کرنا ایک سچے اور پکے مسلمان کی علامت ہے، قائداعظمؒ بھی نہ صرف قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے بلکہ اس کی ایک ایک آیت شریف پر غوروفکر بھی کرتے تھے۔شریف الدین پیرزادہ اپنے مشاہدے کی بناء پر لکھتے ہیں:
’’قائداعظمؒ کے پاس قرآن حکیم کے چند ایک عمدہ نسخے تھے۔ ان میں سے کچھ قلمی بھی تھے۔ ایک بہترین نسخہ جزدان میں لپٹا، ان کے سونے کے کمرے میں، سب سے اونچی جگہ پر رکھا رہتا تھا۔ ان کے اپنے مطالعے میں عموماً پکتھال کا ترجمہ شدہ قرآن مجید رہتا تھا‘‘۔
(پروفیسر سعید راشد، گفتار وکردار قائداعظمؒ‘‘ (مطبوعہ لاہور، 1986ء) صفحہ 273)
قائداعظمؒ اللہ تعالیٰ کی نصرت پر کامل یقین رکھتے تھے اور قرآن کریم کے مطالعے نے ان کے اس یقین کو اور زیادہ مستحکم کر دیتا تھا۔ اس حقیقت کا اظہار آپ نے رانا نصراللہ خان سے یوں کیا:
’’میں نے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ کئی بار پڑھا ہے۔ مجھے اس کی بعض صورتوں سے بہت تقویت ملتی ہے مثلاً وہ چھوٹی سی صورت جس میں ابابیلوں کا تذکرہ ہے، اللہ تعالیٰ نے جس طرح کفار کے بڑے لشکر کو ابابیلوں کے ذریعے شکست دی اس طرح ہم لوگوں کے ذریعے انشاء اللہ کفار کی قوتوں کو شکست ہوگی‘‘۔
اس واقعہ کے راوی رانا نصراللہ خان کہتے ہیںکہ:
’’قائداعظم سورہ فیل بہت ذوق وشوق سے سنتے تھے اور اپنی بات چیت اور تقریروں میں اکثر ’’ان شاء اللہ اور اللہ کو اگر منظور ہوا‘‘ جیسے فقرے استعمال کرتے تھے‘‘۔
(پروفیسر سعید راشد، گفتار وکردار قائداعظمؒ‘‘ (مطبوعہ لاہور، 1986ء) صفحہ 135)
تمام افراد کے اجتماعی حقوق سے لے کر ایک فرد کے انفرادی حقوق تک، اخلاق سے لے کر سزا تک، اس دنیا میں جزا وسزا سے لے کر اگلے جہاں کی سزاء وجزا تک کی حدبندی کرتا ہے‘‘۔
(مجلہ ’’اوج‘‘ (لاہور) گولڈن جوبلی نمبر ’’قرارداد پاکستان‘‘ (1990-91ء) صفحہ 469)
26نومبر 1946ء کو اورنگزیب روڈ، نئی دہلی میں قائداعظمؒ کی قیام گاہ پر تحریک پاکستان کے اہم کارکن ڈاکٹر سیدبدر الدین احمد نے آپ سے ملاقات کی۔ دوران ملاقات قائداعظمؒ نے ان سے فرمایا:
مسٹربدر! میں مطمئن ہوں کہ قرآن وسنت کے زندۂ جاوید قانون پر مبنی ریاست (پاکستان) دنیا کی بہترین اور مثالی سلطنت ہو گی۔ یہ اسلامی ریاست اسی طرح سوشلزم، کمیونزم، مارکسزم، کیپٹل ازم کا قبرستان بن جائے گی۔ جس طرح سرورِ کائنات کا مدینہ، اس وقت کے تمام نظام ہائے فرسودہ کا گورستان بنا۔پاکستان میں اگر کسی نے روٹی کے نام پر اسلام کے خلاف کام کرنا چاہا یا اسلام کی آڑ میں کیپٹل ازم، سوشلزم، کمیونزم یا مارکسزم کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی تو پاکستان کی غیور قوم اسے کبھی برداشت نہیں کرے گی۔یہ یاد رکھو کہ میں نہرو نہیں ہوں کہ وہ کبھی سیکولرسٹ بنتے ہیں، کبھی مارکسٹ! میں تو اسلام کے کامل نظامِ زندگی، خدائی قوانین کی بادشاہت پر ایمان رکھتا ہوں، مجھے عظیم فلاسفر اور مفکر ڈاکٹر اقبال سے نہ صرف پوری طرح اتفاق ہے بلکہ میں ان کا معتقد ہوں اور میرا ایمان ہے کہ اسلام ایک کامل ضابطۂ حیات ہے دنیا کی تمام مصیبتوں اور مشکلوں کا حل اسلام سے بہتر کہیں نہیں ملتا۔ سوشلزم، کمیونزم، مارکسزم، کیپٹل ازم، ہندوازم، امپیریل ازم، امریکہ ازم،روس ازم، ماڈرن ازم یہ سب دھوکا اور فریب ہیں۔
٭٭٭