طالبان کو افغانستان پر قبضے کی دعوت دی گئی تھی ، حامد کرزئی کا بڑا انکشاف

طالبان کو افغانستان پر قبضے کی دعوت دی گئی تھی ، حامد کرزئی کا بڑا انکشاف

لندن : سابق افغان صدرحامد کرزئی نے انکشاف کیا ہے کہ  طالبان نے افغان دارالحکومت  کابل پر قبضہ نہیں کیا تھا بلکہ انہیں  اس کی دعوت دی گئی تھی۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق سابق افغان صدر حامد کرزئی  نے ایک انٹرویو میں سابق صدراشرف غنی کے ملک چھوڑنے اور طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے متعلق گفتگو میں کہا ہے کہ طالبان کو شہر میں داخل ہونے کی دعوت دی گئی تاکہ آبادی کا تحفظ کیا جاسکے اور ملک کو افراتفری سے بچایا جاسکے۔

سابق افغان صدر حامد کرزئی نے اس بات پر بھی اصرار کیا ہے کہ  حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ عبد اللہ عبد اللہ اور دوحہ میں موجود طالبان قیادت اس حوالے سے ہونے والے معاہدے کا حصہ تھی۔حامد کرزئی نے کہا کہ اشرف غنی کے جاتے ہی دیگر حکام بھی ملک چھوڑ گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ  جب  میں نے وزیر دفاع  بسم اللہ خان کو فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ اعلیٰ حکام میں سے شہر میں کوئی بھی موجود نہیں ہے۔

اس کے بعد میں نے وزیر داخلہ کو فون کیا  پولیس چیف کو تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی موجود نہیں تھا۔ یہاں تک کہ نہ کور کمانڈر تھے اور نہ کوئی یونٹ، سب جا چکے تھے۔

حامد کرزئی نے کہا کہ  اشرف غنی کے چلے جانے سے  دارالحکومت میں طالبان کے داخلے کے حوالے سے منصوبہ بندی کو درہم برہم کردیا۔

حامد کرزئی نے بتایا کہ 15 اگست کی صبح افواہیں پھیلی ہوئی تھیں کہ طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا ہے جس پر انہوں نے دوحہ فون کیا جہاں سے انہیں بتایا گیا کہ طالبان شہر کے اندر داخل نہیں ہوں گے۔

حامد کرزئی کے مطابق دوپہر تک طالبان کا بیان آیا کہ حکومت کو اپنی جگہ پر برقرار رہنا چاہیے کیونکہ طالبان شہر میں داخل ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ اس کے بعد تین بجے تک واضح ہو چکا تھا کہ سب ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اشرف غنی کے محافظ دستے کے نائب سربراہ نےان سے کہا کہ وہ محل آکر صدارت سنبھال لیں۔تاہم  میں  نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ یہ  میرا حق نہیں ہے۔حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ اگر اشرف غنی کابل میں ہی رہتے تو پر امن انتقال اقتدار کا معاہد ہ ہوسکتا تھا۔

حامد کرزئی  کا کہنا ہے کہ  آج کل روزانہ کی بنیاد پر طالبان قیادت سے ملاقات کرتاہوں۔ دنیا کو ان سے رابطہ کرنا چاہیے،یہ بھی بہت ضروری ہے کہ افغان عوام بھی متحد ہوجائیں۔’اس صورتحال کا خاتمہ تب ہی ہو سکتا ہے جب افغان اکٹھے ہوں اور اپنا راستہ خود تلاش کریں  ۔