"مشرقی پاکستان کا مزید تذکرہ" کے عنوان سے چھپنے والے پچھلے کالم میں شاگرد وعزیز مکرم و کریم ڈاکٹر ندیم اکرام (ریٹائرڈ ایسوسی ایٹ پروفیسر پیتھالوجسٹ) کی اس خواہش کا ذکر آیا تھا کہ سقوط مشرقی پاکستان کے حوالے سے اس پہلو کو بھی سامنے آنا چاہیے کہ اردو ادب پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس ضمن میں سقوطِ مشرقی پا کستان کے پس منظر میں لکھے گئے ایک دو ناولوں، ایک دوآپ بیتیوں اور جناب الطاف گوہر مرحوم ، جناب نصیرترابی مرحوم اور جناب فیض احمد فیض کے کلام (اشعار) کا حوالہ دیا تھا۔ پچھلے کالم میں گنجائش کم ہونے کی وجہ سے یہ حوالے یا ان کے بارے میں کچھ تذکرہ چھپنے سے رہ گیا تھا۔تاہم اردو کی نامور ادیبہ، افسانہ نگار، اورناول نگار محترمہ الطاف فاطمہ کے مشرقی پاکستان اور سقوط ڈھاکہ کے موضوع پر لکھے جانے والے انتہائی جاندار ، خوبصورت اور متاثر کن ناول ـ ــ''چلتا مسافر'' کا سیر حاصل ذکر ہو گیا تھا۔تاہم ناول کے دو جاندار کرداروں کا تذکرہ اس طرح نہیں ہو سکا تھا جیسے ہونا چاہیے تھا وہ "چلتا مسافر " کے بنگالی کردار بذلل اور مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ڈھاکہ میں تعینات کرنل رینک کے ایک فوجی افسر کی بیٹی کا کردارہے۔ یہ دونوں ڈھاکہ یونیورسٹی میں سید مدثر کے ہم جماعت تھے اور ان کا سید مدثر کے ساتھ اُ س کے گھر میں آنا جانا اور وہاں سید مزمل کی پرمغز اور دانشمندانہ گفتگو سے مستفید ہونا اور اُن کے گھر کے کھانوں سے لطف اُٹھانا ایک عام سا معمول تھا۔
بذلل ایک پرجوش بنگالی نوجوان ہے جو ڈھاکہ یونیورسٹی میں سید مدثر کا ہم جماعت ہونے کے ناطے سید مدثر سے گہرا لگاو ہی نہیں رکھتا ہے بلکہ سید مدثر کے والد سید مزمل سے گہری عقیدت اور ان کے گھرانے سے دلی وابستگی بھی رکھتا ہے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں اس کی سید مدثر ، کرنل صاحب کی بیٹی (نام یاد نہیں آ رہا) اور دوسرے ہم جماعتوں سے گہری نوک جھونک چلتی رہتی ہے، وہ اپنی ہم جماعت کرنل صاحب کی بیٹی کو پسندیدگی کی نگاہوں سے ہی نہیں دیکھتا بلکہ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے فوجی افسر کی بیٹی ہونے کے ناطے حکمران ہونے کے طعنے بھی دیتا رہتا ہے۔ کرنل صاحب کی بیٹی جس کی لاہور میں بریگیڈیئر رینک کے اپنے تایا کے بیٹے سے بچپن سے منگنی چلی آ رہی ہے کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ خاندانی اور معاشرتی روایات کی پاسداری کرنے کے باوجود بذلل کے لیے اپنے دل میں کسی حدتک نرم گوشہ رکھتی ہے۔
زندگی کے معاملات ایسے ہی چلتے رہتے ہیں نوجوانوں کے گلے شکوے ، شکایتیں ، سید مزمل کی دانش و بصیرت اور حبِ وطن سے گندھی باتیں اور ان کے گھرانے کے روایتی کھانے اور سید مدثر کے ان ہم جماعتوں اور دوستوں کی ان میں شرکت چلتی رہتی ہے۔ پھر کیا ہوتا ہے شاعر نے جو کہا تھا ۔
چلی یوں غم کی آندھیاں کہ باغ اُجڑ گیا
مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے جذبات زور پکڑنا شروع کر دیتے ہیں ۔ شیخ مجیب الرحمٰن کی جماعت عوامی لیگ کی طرف سے ان جذبات کو وسیع پذیرائی ملتی ہے۔ متحدہ پاکستان کے حامیوں اور غیر بنگالیوں کے لیے زندگی اجیرن بنا دی جاتی ہے۔ بنگالی علیحدگی پسند، شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ کے پرجوش کارکن اور مکتی بانی کے مسلح غنڈے ہر طرف دندناتے پھرتے ہیں۔ غیر بنگالیوں کے گھر وں پر کراس کے نشان لگا لیے جاتے ہیں کہ اُن کو نشانہ عبرت بنانا ہے۔ بذلل بھی نفرت کی اس فضا ء میں متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ پھر 16دسمبر کا منحوس دن آتا ہے تو بذلل سید مزمل، سید مدثر اور اُن کی گھر کی خواتین کو ڈھاکہ میں قائم محمد پور کے بہاری کیمپ میں پہنچا دیتا ہے۔ اس کا اگلا اقدام یہ ہوتا ہے کہ وہ سید مزمل کی خواہش کے مطابق سید مدثر کو کسی نہ کسی طرح مغربی پاکستان بھیجنے کا انتظام کرتا ہے۔ سید مدثر بھیس بدل کر پہلے کلکتہ وہاں سے کھٹمنڈو اور آخر کار اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ محترمہ الطاف فاطمہ کے ناول "چلتا مسافر"کے مطابق سید مدثر وہ چلتا مسافر ہے جس کا سفر اسلام آباد پہنچ کر بھی ختم نہیں ہوتا ۔ وہ ایک دن حویلیاں میں قائم بہاریوں کے کیمپ میں کرنل صاحب کی بیٹی جس کی شادی اپنے تایا کے بیٹے جو فوج میں کیپٹن ہے سے ہو چکتی ہوتی ہے کو جب اپنے میاں کے ساتھ ایبٹ آباد جانے کے لیے حویلیاں کے ریلوے سٹیشن پر پہنچتی ہے تو اسے اور بہاری نوجوانوں کے ساتھ سید مدثر دکھائی دیتا ہے وہ بھونچکا کر اُسے دیکھنے لگتی ہے۔ اُس کا میاں اس سے پوچھتا ہے کہ کیا ہے؟ تو وہ اسے آگے سے کہتی ہے کچھ نہیں بس ایک چلتا مسافر۔
چلتا مسافر کا تذکرہ پھر کچھ طویل ہو گیااب واپس ہم اُن اشعار کی طرف آتے ہیں جو عزیزی ڈاکٹر ندیم اکرام نے اپنے واٹس ایپ میسج میں میری طرف بھیج رکھے ہیں۔ جناب الطاف گوہر، فیض احمد فیض اور نصیر ترابی کے اشعار کچھ اس طرح ہیں۔
محترم الطاف گوہر مرحوم
خیال یار گیا، انتظار یار گیا
گیا وہ یار گیا مدتوں کا پیار گیا
وہ جس کے حسن میں شوخی تھی موج دریا کی
مچلتی ، ناچتی موجوں کے ہم کنار گیا
نصیر ترابی
وہ ہم سفر تھا مگر اسے ہمنوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاوں کا عالم رہا جدائی نہ تھی
نہ اپنا رنگ ، نہ اپنا دکھ نہ اوروں کا ملال
شب ِ فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی
محبتوں کا سفر کچھ اس طرح بھی گزرا تھا
فیض احمد فیض
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئی گئی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
تھے بہت بے درد لمحے ختمِ درد عشق کے
تھیں بہت بے مہرصبحیں مہرباں راتوں کے بعد
مجھے خوشی ہے کہ میں نے شاگرد عزیز ڈاکٹر ندیم اکرام کی فرمائش و خواہش کی تعمیل ہی نہیں کر دی ہے بلکہ اپنے مرحوم مشرقی پاکستان کے حضور عقید ت کے چند مزید پھول بھی نچاور کر دیئے ہیں۔