جب میں ٹائیگر نیازی کی بات کرتا ہوں تو بعض لوگ اسے کسی اور سے تشبیہہ دیتے ہیں حالانکہ میں کسی اور سیاق و سباق میں بات کرتا ہوں۔ آج میں جس ٹائیگر نیازی کی بات کر رہا ہوں وہ اس اشرافیہ کا محض ایک کردار ہے جو اس ملک پر مسلط ہے۔ اس اشرافیہ کو عوام سے فقط اس حد تک پیار ہے کہ وہ ان کا خون چوستے ہیں، خون کم ملے تو زیادہ خون نکالنے کے ٹیکے لگائے۔ جیسے ایک گوالہ زیادہ دودھ کے لیے بھینس کو ٹیکے لگاتا ہے۔ ڈھاکہ کے پلٹن گراؤنڈ میں ٹائیگر نیازی نے 1971 میں آج ہی کے دن جگجیت سنگھ اروڑہ کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کر دیے تھے۔ ہماری ساری فوجی قوت زمین بوس ہو گئی تھی۔ ہمارے مقدر میں ایک ذلت آمیز شکست لکھ دی گئی۔ ٹائیگر نیازی پر مجھے ترس آتا ہے۔ حالات کی خرابی کا اسے اندازہ نہیں تھا ورنہ وہ یہ رسک نہ لیتا۔ آج تک اس کے نام کو بزدلی اور شکست کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔ بے چارے کا قصور محض اتنا تھا کہ وہ کمانڈ چاہتا تھا۔ کمانڈ کرنے کا الگ نشہ ہے۔ آج بھی بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو اس سانحہ کا مرکزی کردار اسے گردانتے ہیں اور جن لوگوں نے پاکستان کی عزت بیچ چوراہے میں نیلام کر دی انہیں کچھ نہیں کہا جاتا۔ آج بھی سرکاری طور پر حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کو شائع نہیں کیا جا رہا۔ آج ان عوامل کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی جا رہی جس کی وجہ سے تحریک پاکستان میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والا مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ کیا ہم نے تاریخ سے سبق سیکھا ہے۔ بالکل نہیں بلکہ ہم اسی راستے پر بھگ ٹٹ جا رہے ہیں جس کے آگے کھائی ہے۔
سقوط ڈھاکہ پر بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ انہوں نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے۔بنگالی قومیت نے ہماری ساری فلاسفی کو ختم کر دیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم نے ان کی شناخت کو ختم کر دیا۔ ان کی زبان کو ان سے چھیننے کی کوشش کی اور معاشی ترقی کے راستے مسدود کر دیے۔ بنگالی قد میں چھوٹے تھے اس لیے ان کی بھرتی افواج پاکستان میں بہت کم تھی۔ جو قد کے معیار پر پورا اترتے تھے انہیں بھی رد کر دیا جاتا تھا۔اردو ان کی زبان نہیں تھی اس لیے بیوروکریسی پر اردو بولنے والوں نے قبضہ کر لیا۔ آج اس بات پر تحقیق ہونا چاہیے کہ 1971 تک پاکستان کی افواج میں بنگالیوں کی تعداد کتنی تھی اور کیا آبادی کے تناسب سے انہیں فوج میں ملازمتیں حاصل تھیں۔ اگر یہ محض پروپیگنڈا ہے تو تحقیق سے اس کا جواب سامنے آنا چاہیے۔
کیا اس بات کا جواب کسی کے پاس موجود ہے کہ انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کرنے والوں کا راستہ کس نے روکا اور کیوں روکا۔ 15 دسمبر 1971 کو اقوام متحدہ میں سیز فائر کی جو قرارداد پولینڈ نے پیش کی تھی اسے پھاڑنے کا اختیار وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو کس نے دیا تھا۔ کیا 15 دسمبر تک بھی ہمیں یہ علم نہیں تھا کہ ڈھاکہ سمیت تمام بڑے شہروں پر مکتی باہنی قبضہ کر چکی ہے۔ مشرقی پاکستان میں بغاوت ہو چکی تھی اور مغربی پاکستان کا میڈیا ہماری افواج کی تاریخی کامیابیوں کی خبریں دے رہا تھا۔ سقوط ڈھاکہ ہو چکا تھا اور مغربی پاکستان کے لوگ چین سے سو رہے تھے کہ محاذ پر ہمارے بہادر فوجی داد شجاعت دے رہے ہیں۔
بنگلہ دیش بنانے میں وہاں کے سیاستدانوں سے زیادہ اہم کردار اس طرف کی اشرافیہ نے ادا کیا۔ بنگال کی اکثریت کو ختم کرنے کے لیے ون یونٹ تشکیل دے کر اس کا نام مغربی پاکستان رکھ دیا گیا۔ کسی کی شناخت، تہذیب، ثقافت اور الگ زبان ہمارے لیے کوئی مسئلہ کبھی رہی نہیں۔ بنگالی کو
سرکاری زبان قرار دینے کے مطالبے کر رد کر دیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے اپنا الگ ملک بنا لیا۔ ہم نے مجیب کے چھ نکات کو قبول کرنے کے بجائے یہ ٹھیک سمجھا کہ اسے الگ سے ملک دے دیا جائے۔ ڈھاکہ تو ہم نے کوسوں دور تھا ہم نے تو کبھی بلوچستان جانے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ وہ کیا سوچتے ہیں وہ کیا چاہتے ہیں ان کی محرومیاں کیا ہیں کبھی ان پر غور نہیں کیا۔
شیخ مجیب الرحمن راتوں رات لیڈر نہیں بنا تھا۔ بنگال کے سیاستدانوں کو ہم نے وہ عزت نہیں دی جس کے وہ حق دار تھے۔بنگال کی شناخت کو ختم کر کے ہم نے اسے مشرقی پاکستان کا نام دے دیا۔ مجیب الرحمن کے چھ نکات کو دیکھیں تو وہ وہی ہیں جو قائد اعظم نے قرارداد لاہور میں پیش کیے تھے۔
شیخ مجیب نے اپنے ان نکات میں کہا تھا کہ 1965 میں انڈیا کے ساتھ سترہ روزہ جنگ کے نتیجے میں جو تجربہ حاصل ہوا ہے اس کی روشنی میں ملک کے آئینی ڈھانچے کی تشکیل پر نظر ثانی ضروری معلوم ہوتی ہے، اس لیے:
1۔آئین میں حقیقی معنوں میں قرارداد لاہور کی بنیاد پر پاکستان کے ایک وفاق کا اہتمام ہونا چاہیے۔ نظام حکومت پارلیمانی ہونا چاہیے، براہ راست طریقہ انتخاب اور عام بالغ رائے دہی کی اساس پر منتخب قانون ساز اداروں کو پوری فوقیت حاصل ہونی چاہیے۔
2۔وفاقی حکومت کا تعلق صرف دو امور یعنی دفاع اور امور خارجہ سے ہونا چاہیے۔ باقی سب امور وفاق کو تشکیل دینے والی ریاستوں کی تحویل میں ہونے چاہئیں۔
3۔نظام زر اور کرنسی کے بارے میں حسب ذیل دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت اختیار کی جا سکتی ہے۔ اول: دو علیحدہ اور پوری آزادی سے قابل مبادلہ نظام ہائے زر رائج کیے جائیں۔ دوئم: ملک بھر کے لیے ایک ہی نظام زر رکھا جائے، اس صورت میں آئین میں مؤثر اہتمام کیا جائے تاکہ مشرقی اور مغربی پاکستان سے سرمائے کے فرار کو روکا جاسکے۔ مشرقی پاکستان کے لیے علیحدہ بینکنگ ریزرو قائم کیا جائے اور علیحدہ مالیاتی پالیسی اختیار کی جائے۔
4۔وفاق کی تشکیل کرنے والی ریاستوں کو ہی ٹیکس وصول کرنے اور محاصل حاصل کرنے کا تمام تر اختیار ہو گا، البتہ اسے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ریاستوں کے ٹیکسوں سے اسے حصہ ملے گا اور مجموعی وفاقی فنڈ کے قیام کے لیے ریاستوں کے تمام ٹیکسوں پر طے شدہ شرح سے اضافی محصول عائد کیا جا سکے گا۔
5۔بیرونی تجارت کے سلسلہ میں: الف۔ وفاق کی تشکیل کرنے والی ہر ریاست کے لیے خارجہ تجارت کا علیحدہ حساب رکھا جائے گا۔ ب: خارجہ تجارت سے جو زرمبادلہ حاصل ہوگا، وہ ریاستوں کی تحویل میں رہے گا۔ ج: وفاقی حکومت کی زرمبادلہ کی ضروریات دونوں ریاستوں (مشرقی اور مغربی پاکستان) کی طرف سے مساوی طور پر یا کسی متفق علیہ شرح سے پوری کی جائیں گی۔ د: دونوں ریاستوں سے مقامی اشیا کی کسی ٹیکس یا محصول کی پابندی کے بغیر نقل و حمل ہو سکے گی۔ ہ: ریاستوں (صوبوں) کو آئین کے ذریعے اس امر کا مجاز قرار دیا جائے کہ وہ دوسرے ملکوں میں اپنے تجارتی نمائندے مقرر کر سکیں جو اپنی ریاست کے مفاد میں سودے کر سکیں۔
6۔آئین کے تحت ریاستوں کو نیم فوجی یا علاقائی فوجی دستے قائم کرنے اور انھیں برقرار رکھنے کی اجازت ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنی علاقائی سالمیت کے ساتھ آئین کا تحفظ بھی کر سکیں۔
چھ نکات میں سے چھٹا نکتہ ایسا تھا جس پر سب زیادہ تنقید ہوتی ہے یا مرکز کے پاس صرف دو اختیارات کی بات ہوتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے بعد پاکستان فیڈریشن کی بجائے کنفیڈریشن بن جاتا۔ یعنی ہم نے کنفیڈریشن کو قبول نہیں کیا اسے علیحدہ کرنا مناسب سمجھا۔
سچی بات یہ ہے کہ ایوب خان کے فوجی مارشل لا نے بنگلہ دیش کی بنیاد رکھ دی تھی۔ مغربی پاکستان کے سیاستدان اور میڈیا بھی اس کا ذمہ دار ہے کہ وہ صرف ایوب خان کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے تھے۔ ایک کوشش ضرور ہوئی کہ مشرقی پاکستان کے لوگوں کو ان نکات کی حقیقت سے آگاہ کیا جائے اور اس مقصد کے لیے ایک وفد مشرقی پاکستان جائے مگر اس وفد کو گرفتار کر لیا گیا۔ صرف مولانا مودودی اور چوہدری محمد علی ہی مشرقی پاکستان پہنچ سکے۔ نواب زادہ نصراللہ خان، سید محمد افضل اور ایم انور وفد کے باقی ارکان تھے جنہیں دوسرے سیاستدانوں سمیت پابند سلاسل کر دیا گیا۔ 1965 کی جنگ کے بعد مشرقی پاکستان کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ پاکستان کسی بڑی جنگ کی صورت میں اس کا دفاع کرنے سے قاصر تھے۔
ٹائیگر نیازی اس ملک میں ایک استعارے کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ پاکستان میں بسنے والی قوموں کی آواز کو سنا جائے ورنہ مشرقی پاکستان جیسا سانحہ کسی بھی وقت رونما ہو سکتا ہے۔ ہم نے قائد اعظم کے چودہ نکات تو یاد کر لیے مگر مجیب الرحمن کے چھ نکات بھول گئے۔ ایک نے پاکستان بنایا دوسرے نے اسے توڑ دیا۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
سانحہ ایک دم نہیں ہوتا