لاہور:چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جتنے فیصلے بھی کئے ہیں ضمیر کے مطابق کئے ہیں،کسی کا زور چلتا ہوتا تو حدیبیہ کیس کا فیصلہ ایسے نہ آتا،
ان کا مزید کہناتھا کہ ہر جج آزاد ہے،عمران خان نااہلی کیس کا فیصلہ، کہا ایک ماہ میں محفوظ فیصلہ سنانا ہے،بار اور بنچ کی کوتاہیوں کا ذمہ دار میں ہوں،خاتون سول جج کو گالیاں دینا کون سے پڑھے لکھے لوگوں کا شیوہ ہے؟
صبح سے رات تک کام کرتا ہوں، نیند کیلئے 3 گھنٹے بچتے ہیں، کچھ لوگ کہتے ہیں سپریم کورٹ تقسیم ہو گئی ۔ کسی کا زور چلتا تو حدیبیہ کیس کا فیصلہ ایسا نہ آتا، ایک جج کا ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کے عین مطابق فیصلہ کرے ،
چیف جسٹس نے نے اپنےخطاب میں مزید کہا کہ قوم کو جوڈیشری پر ناز ہونا چاہیے ۔ آپ کو خوش ہونا چاہئے کہ جوڈیشری آزاد ہے ۔ ہم ذمہ داری ، اور جذبے سے فیصلے کرتے ہیں ،
یہ بات یاد رکھیں عدلیہ کسی پلان کا حصہ نہیں ہیں ، انصاف کی فراہمی کے لیے ہر کسی کو کام کرنا ہو گا، جمہوریت کا کیا مقام ہے میں نے اپنے فیصلے میں بتایا ، ریاست کے تمام سسٹم جمہوریت سے جڑے ہوئے ہیں ،
لوگوں کے تبصروں پر مجھے حیرانی ہوئی ،ججز کے لیے بات کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہناتھا کہ کہ تمام ججز کے لیے ٹریننگ پروگرام ہونے چاہیے ۔ہمیں معاملات بہتر طریقے سے چلانے کے لیے ایمانداری کی ضرور ت ہے ،
ایک موقع پر ان کا کہناتھا کہ آپ اچھی سے اچھی تجویز دیں ہم شکر گزار ہوں گے ، میں نے ججز سے کہا کہ کسی بھی اپائونمنٹ سے پہلے مشاورت ہونی چاہیئے ،ببانگ دہل کہتاہوں جو اپاوئنمنٹ معیار پر نہیں ہو گی اسے نہیں کروں گا،
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ اعتراف کرتا ہوں انصاف کی فراہمی میں تاخیر ہوئی ۔قانون میں اگر کوئی غلطی ہے تو اسے ٹھیک کرنا جج کی ذمہ داری ہے ۔