اسلام آباد : حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ خان کا کہنا ہے کہ جمہوریت کے لئے سیاسی کارکنوں، طلبااور ٹریڈ یونین رہنماں، ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں سب نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔اسلام آباد میں گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا ہے کہ سیاسی کارکنوں طلبااور ٹریڈ یونین رہنماں ادیبوں شاعروں اور صحافیوں نے اس ملک میں جمہوریت کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں کچھ ڈکٹیٹر وردی میں تھے اور کچھ بغیر وردی کے بھی تھے۔
ایوان بالا میں سیاسی قیدیوں پر بحث کی تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے مشاہد اللہ خان نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت کے لئے قربانیاں دینا بہت مشکل کام تھا۔ بھارت یا کسی اور ملک میں سیاسی رہنماں اور کارکنوں نے اتنی قربانیاں نہیں دی۔ صرف سیاسی لوگوں نے نہیں میڈیا کے لوگوں ادیبوں شاعروں نے بھی قربانیاں دی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے اس ملک اور نظام کو جکڑا ہوا تھا آہستہ آہستہ ہم اس کے چنگل سے نکل رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ اتنا آسان نہیں تھا۔ پاکستان بننے کے فورا بعد سے یہ سلسلہ شروع ہوگیا۔ ممتاز دولتانہ نے بڑی قربانیاں دیں مولانا مودودی عبدالستار نیازی پھانسی کے پھندے سے واپس آئے۔ مارشل لامیں میڈیا اور سیاسی کارکنوں نے بڑی قربانیاں دیں۔ شاہی قلعہ سے ٹریڈ یونین اور طلبارہنماں کی چیخیں سنائی دیتی تھیں۔ جالب کو ایک نظم پر دس سال قید کی سزا ہوئی۔
یہ کوئی مذاق نہیں ہے ہر جماعت کو اس کو سمجھنا چاہیے۔ ماضی میں کیا کچھ ہوتا رہا فاطمہ جناح کو ہرایا گیا ان کے کردار پر الزام لگائے گئے۔ حسن ناصر اور بارک اللہ خان جیسے طلبارہنماں کو قید میں ڈالا گیا۔ جماعت اسلامی پر پابندیاں لگیں ۔اس ملک کی تاریخ میں دو قسم کے ڈکٹیٹر آئے ہیں کچھ وردی میں اور کچھ بغیر وردی کے میں کسی کا نام نہیں لیتا۔ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ پڑھ لیں پتہ چل جائے گا۔مشاہد اللہ کا کہنا تھا کہ 1970کا الیکشن شفاف تھا یا نہیں عطااللہ مینگل کے بیٹے کی قبر کا آج بھی پتہ نہیں۔ چوہدری ظہور الہی مرحوم نے جیلیں کاٹیں صلاح الدین کو قتل کیا گیا۔ 319 لوگ تحریک نظام مصطفی میں شہید ہوئے۔ ضیاکا دور بھی ایک تاریک دور تھا۔سینیٹر مشاہد اللہ خان سیاسی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے رہنماوں کے بارے میں مزید بات کرنا چاہتے تھے لیکن چیئرمین نے وقت کی کمی کے باعث انہیں روک دیا