لاہور( شہباز سعید)جب بھی دسمبر آتا ہے تو پاکستانیوکو آبدیدہ کردیتا ہے۔حالانکہ رونا تو انہیں چاہیئے تھا جو دونوں دفعہ اس قوم پر ظلم ڈھا کر بھی اپنے مقاصد میں ناکام ٹھہرے۔ایک بار قوم کے دوحصے کئے تو دوسری بار قوم کو ایک بار پھر جوڑ گئے۔دونوں سانحے اذیت ناک اورتکلیف داہ ہیں۔سقوط ڈھاکہ کانام آتے ہی بھرے ہوئے زخم تازہ ہوجاتے ہیں تو سانحہ آرمی پبلک سکول یاد آتے ہی دل پھوٹ پھوٹ کر رونے کو کرتا ہے۔ 45 سال پہلے آج ہی کے دن پاکستانی قوم نے اپنے وطن کو دو حصوں میں تقسیم ہوتے دیکھا ۔تو ٹھیک2سال قبل انہی پاکستانیو نے اپنے لخت جگروں اور قوم کے معماروں کو دشمن کے ہاتھوں لہو لہو دیکھا۔
آرمی پبلک اسکول پشاور میں چلنے والی گولیوں سے اٹھارہ کروڑ عوام کا سینہ چھلنی کرنے کا دن، لہو سے فتح کے چراغ روشن کرنے کا دن، بزدل دشمن کو نیست و نابود کرنے کا دن، وہ دن جو 144 خاندانوں پر ہمیشہ کیلئے قیامت برپا کرگیا، وہ دن جب 144 چہرے امر ہوگئے وہ دن جب بہنے والے لہو کا ایک ایک قطرہ مادر وطن کے دفاع پر نچھاور ہو کر قوم کی صدا بن گیا۔
کہتے ہیں جب جوانوں کے کاندھوں پر بزرگوں کے جنازے ہوں تو اسے زمانہ امن کہتے ہیں مگر جب بوڑھے مل کر جوانوں اور بچوں کے لاشے اٹھائیں تو وہ جنگ کا زمانہ ہوتا ہے۔ 16دسمبر2014ء کی وہ خون آشامِ صبح جب پھولوں جیسے پچے ماؤں کی آغوش سے نکل کر ہنستے کھیلتے اسکول پہنچےلیکن دس بج کر چالیس منٹ پر ان معصوموں پر پر قیامت برپا کردی گئی۔
دہشت گرد اسکول میں داخل ہوئے اور گولیوں سے پھولولوں جیسے بچوں کو چھلنی کرتے گئے۔پاک فوج کے جوان مستقبل کے ان معماروں کی جان بچانے کے لیے پہنچے تو بزدل اور سفاک دہشت گردوں نے ان بچوں کو ڈھال بنا لیا۔
خودکش جیکٹس اور جدید اسلحہ سے لیس حملہ آوروں نے قوم کے ان نونہالوں کے ، خون سے سکول کو نہلادیا
گولیوں کی تڑاہٹ اور دھماکوں سے ہرطرف ان معصوموں کی لاشیں بکھر گئیں کلاس رومز سے لے کر اسکول کے ہال کے درودیوارتکفرشتہ صفت بچوں کے خون کے چھینٹوں سے بھر گئے۔مائیں روتی بلکتی اپنے جگر گوشوں کی تلاش میں اسکول پہنچیں تو کسی کی مامتا اجڑ گئی تو کسی باپ کے خواب بزدل دہشت گرد کے ہاتھوں چکنا چور ہوچکے تھے۔ اسے سانحہ کہیں، قیامت یا پھر کوئی اور نام دیں ؟ تاریخ اس اندوہناک واقعے پر ہمیشہ ماتم کرتی رہے گی۔
سانحے کو آج پورے دوسال ہوچکے ہیں لیکن غم ہے کہ مٹتا ہی نہیں کرب ہے کہ جاتا ہی نہیں اور آنسو ہیں کہ رکتے ہی نہیں۔ بزدل دشمن نہیں جانتا اس نے اے پی ایس میں سیکڑوں پھول تو مسل دیئے لیکن ان کی خوشبو امن کی پہچان اور وطن کی آن بن گئی ۔ قریہ قریہ شہر شہر ان ننھے مجاہد وں اور شہداء کو خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے۔
دوسری جانب سقوط ِڈھاکہ پاکستان کی تاریخ وہ سیاہ دن جو شاید کبھی بھول نہ پائے۔16 دسمبر 1971ء وہ دن تھا۔ جب بھارت کی سازشوں اور کچھ اپنوں کی بے وفائی سے اسلامی دنیا کا سب سے بڑا ملک پاکستان دو لخت ہو گیا۔مشرقی پاکستان کی مقامی آبادی اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف دشمن کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ ہمارے 90 ہزار فوجی گرفتار ہوئے اور انہوں نے بھارت کی قید میں طویل مدت گزاری۔45برس گزر گئے۔ مگر آج بھی اس دن کی تکلیف اور اذیت روز اول کی طرح تڑپا دیتی ہے۔سقوطِ ڈھاکہ کے ذمہ داروں کا تعین ہوا اور نہ کسی کو سزا دی گئی۔
1971 سے2014 تک پاکستان نے 2بڑے سانحات دیکھے۔ دعا ہے کہ اب پاکستان اور قوم کو مزید دکھ نہ جھیلنا پڑے۔