’’اکھیاں اڈیک دیاں‘‘، " ایس تو ڈھاڈا دکھ نہ کوئی"،سروں کے شہنشاہ  استاد   نصرت فتح علی خان کو سن کر گورے بھی جھوم اٹھتے تھے

 ’’اکھیاں اڈیک دیاں‘‘،

لاہور: ’’وہی خدا ہے‘‘، ’’سانسوں کی مالا‘‘، ’’دم مست قلندر‘‘، ’’اکھیاں اڈیک دیاں‘‘، ایس تو ڈھاڈا دکھ نہ کوئی"   ، قوالی، غزل، صوفی گیت ، استاد  نصرت فتح علی خان نے جو گایاکمال گایا۔  استاد نصرت فتح علی خان سروں کے بے تاج بادشاہ تھے۔ ان کے گیت آج بھی  سحر طاری کردیتے ہیں۔   سروں کے بے تاج بادشاہ استاد نصرت فتح علی خان کو دنیا فانی سے کوچ کئے 27 برس بیت گئے ہیں۔ 

اپنے میوزیکل کیریئر کے دوران، نصرت فتح علی خان ایک ثقافتی آئیکون بن گئے جن کے مداحوں کی فہرست اسلامی دنیا سے نکل کر مغربی راک اور پاپ تک پھیل گئی۔ نصرت فتح علی خان کے مداحوں میں رولنگ سٹونز، میڈونا، مائیکل جیکسن، اور پرل جیم کے فرنٹ مین ایڈی ویڈر شامل ہیں۔
شہنشاہ قوالی نے فیصل آباد کے ایک قوال گھرانے میں 13 اکتوبر 1948 کو آنکھ کھولی۔ا نہوں نے دس برس کی عمر میں 
موسیقی کے سازوں اور  سر پر عبور حاصل کرلیا تھا۔ انہوں نے  16 سال کی عمر میں قوالی کا فن سیکھا، قوالی کے ساتھ غزلیں، کلاسیکل اور صوفی گیت بھی گائے، استاد نصرت فتح علی خان کا گایا گیا ہر گیت پاکستان اور بھارت سمیت دنیا کے کونے کونے تک پہنچا اور امر ہوگیا۔
نہوں نے مغربی سازوں کو استعمال کر کے قوالی کو جدت کے ساتھ ساتھ ایک نئی جہت بخشی، ان کی قوالی ’دم مست قلندر علی علی‘ کو عالمی مقبولیت حاصل ہے۔اس کے علاوہ ’’وہی خدا ہے‘‘، ’’سانسوں کی مالا‘‘، ’’دم مست قلندر‘‘، ’’اکھیاں اڈیک دیاں‘‘، ’’گورکھ دھندہ‘‘ اور ان جیسی کتنی ہی قوالیاں اور غزلیں، جس نے بھی سنیں وہ ان کا مداح ہوگیا۔
قوالی کے 125 البم ریکارڈ کروانے پر استاد نصرت فتح علی خان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں میں بھی شامل ہے۔
پیٹر گیبریل اور ریئل ورلڈ ریکارڈز کے ساتھ نصرت فتح علی خان کا تعلق 1985 کے وومیڈ فیسٹیول میں ان کی شاندار پرفارمنس کے بعد شروع ہوا، یہ پہلی بار تھا جب انہوں نے زیادہ تر مغربی سامعین کے سامنے پرفارم کیا تھا، اس تاریخی لمحے کے فوری بعد ہی ان کے ساتھ معاہدہ طے پایا تھا، اور ان کی بین الاقوامی مقبولیت میں گیبریل کے 1989 کے البم پیشن  کے بعد اضافہ ہوا، یہ البم فلم دا لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرسٹ  میں شامل تھی۔
سحر انگیز آواز اور شخصیت کے حامل استاد نصرت فتح علی خان گردوں کے عارضہ میں مبتلا ہوئے اور 49 برس کی عمر میں 16 اگست 1997 کو اپنے چاہنے والوں کو روتا چھوڑ کر منوں مٹی تلے جا سوئے۔

مصنف کے بارے میں