یہ میثاق جمہوریت والے زمانے کی بات ہے میںنے جنرل ظہیرالاسلام عباسی سے سوال کیاکہ کیا محترمہ بینظیربھٹواورمیاں محمد نوازشریف کی وطن واپسی اوردوبارہ حکومت واقتدارمیں آنے سے ملک اورقوم کے یہ حالات بدل جائیں گے۔؟ میرے اس سوال پرجنرل صاحب نے نفی میں سرہلاتے ہوئے کہا۔نہیں کبھی نہیں، اقتدار کی باگ ڈور پرویز مشرف کے ہاتھ میں ہو یا بینظیر بھٹو اور نوازشریف کے پاس،حالات ایسے ہی رہیں گے کیونکہ چہروں کی تبدیلی سے حالات کبھی نہیں بدلتے۔جنرل صاحب نے ٹھیک کہاتھا۔۔ ہم پچھہتر سال سے یہ سمجھ رہے ہیں کہ پرانے کے جانے اورنئے کے آنے سے حالات بدل جائیں گے لیکن سترسال سے اس ملک میں چہرے توبدل رہے ہیں لیکن حالات۔۔؟ حالات ہمارے آج بھی ویسے ہی ہیں جیسے پہلے تھے بلکہ اب تواس سے بھی بدتربہت بدترہوچکے ہیں۔پہلے توکم ازکم ہم روکھی سوکھی کھالیتے تھے لیکن اب تواس سے بھی رہ گئے ہیں۔ حالات جس ڈگر پر چل رہے ہیں لگتاتویہ ہے کہ ہماری آنکھیں اب روکھی سوکھی اورخشک روٹی کے لئے بھی ایک دن ترسیں گی۔دوکی جگہ ایک روٹی کھانے،چائے کاایک کپ پینے اورٹماٹراستعمال نہ کرنے کے آرڈرتوپہلے ہی آچکے ہیں اب صرف اس دن اورآرڈرکاانتظارہے کہ جب یہ شاہی فرمان جاری ہوگاکہ حالات ٹھیک نہیں عوام کچھ کھانے کے بجائے پیٹ کے ساتھ ایک ایک اوردودوپتھرباندھ لیں۔آپ یقین کریں اگریہی نظام اوریہی لوگ ہمارے حکمران رہیں تووہ دن اب اتنادورنہیں جب اس ملک کے عوام کوپیٹ کے ساتھ پتھر باندھنے کے لئے لمبی لمبی لائنوں میں کھڑاہوناپڑے گا۔ ملک میں بڑھتی مہنگائی،غربت اور بیروزگاری نے ہرشخص کوفاقہ کشی پر مجبور کر دیا ہے مگر افسوس وزیراعظم سے لیکر ایک وزیر اور مشیر تک کسی کواس کی کوئی پروا نہیں۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ سونامی خان کے جانے کے بعدملک اورقوم کے حالات کہیں بدل جائیں گے لیکن پرانے کے جانے اورنئے کے آنے کے بعدبھی حالات کیا۔؟غریبوں کاحال تک بھی نہیں بدلا۔ عمران خان کے بعدوزیراعظم شہبازشریف کی حکومت اورحکمرانی میں عوام کایہ حال بے حال دیکھ کرمجھے جنرل ظہیرالاسلام عباسی کی وہ ’’نہیں کبھی نہیں‘‘ والی بات یادآنے لگتی ہے۔ کوئی آئے یاجائے اس سے واقعی ہمارے حالات نے نہیں بدلنا۔ پچھہتر سال میں ایوب خان، بینظیر بھٹو، نوازشریف، پرویز مشرف، زرداری، عمران خان اورشہبازشریف تک کتنے آئے اورگئے لیکن ہم جہاں کھڑے تھے آج بھی وہیں کے وہیں ہیں۔ مانا کہ ان آنیوں جانیوں سے چند افراد، چند خاندان اورکچھ مخصوص طبقوں کے دن اورحالات ضروربدلے مگرمجموعی طورپرہمیں اس کاکوئی فائدہ نہیں ہوابلکہ الٹاایک نقصان ضرورہواکہ ہرجانے والے کے گناہ ہمارے کندھوں پر لادے گئے۔آج بھی مہنگائی ،غربت اوربیروزگاری سمیت دیگر گناہوں کی یہ بوریاں جوہم نے اپنے ان ناتواں کندھوں پراٹھائی ہوئی ہیں یااٹھارہے ہیں کیا۔؟ یہ گناہ ہمارے اپنے ہیں۔؟نہیں ہرگزنہیں۔ملک کوہمیشہ دیمک کی طرح چاٹااورکاٹاکسی اورنے لیکن قیمت ہمیشہ ہم غریبوں نے اداکی۔یہ جنہیں ہم پچھہتر سال سے حکمران اورامیرالمومنین کہتے ہیں ان میں اور پیشہ ورچوروںمیں توکوئی خاص فرق نہیں۔چوربھی توگھرکاصفایاکرکے ان کی طرح غائب ہوجاتے ہیں۔ہاں یہ فرق ہے کہ چوررات کی تاریکی میں ہاتھ مارتے ہیں اور ہمارے یہ بہادر، دلیر اور ایماندار دن کی روشنی میں اپناکام نکالتے ہیں۔ ایوب خان سے لیکرنوازشریف اورزرداری سے لیکر عمران خان تک سب کفن چوریاکفن چورکے بیٹے تھے، نہ پہلے ملک وقوم کاکوئی مخلص تھااورنہ اب ملک وقوم کاہمدردکوئی ہے۔یہ سونامی والے گناہوں کاسارابوجھ عوام پرڈالنے والے یہ موجودہ حکمران کیایہ ملک وقوم کے کوئی مخلص ہیں۔؟ انصاف کی نظرسے اگردیکھاجائے توعوام کے لئے یہ سب ایک بالکل ایک جیسے ہیں۔ اس ملک میں آج تک مائی کاکوئی ایسالعل نہیں آیاجس نے اپنے منہ سے نوالہ نکال کرعوام کودینے کی بات کی ہو۔آج تک جوبھی آیااس نے عوام کے منہ سے ہی نوالہ چھیننے کی بات کی ۔ایک نے کہاکہ عوام ٹماٹر کھانا چھوڑ دیں ،ایک نے کہاکہ عوام دوکی جگہ ایک روٹی کھائیں،ایک نے کہاکہ چائے میں چینی کے اتنے دانے ڈالیں ،اب ایک فرما رہے ہیں کہ عوام ایک کپ چائے پئیں۔ خون بھی عوام دیں،پسینہ بھی عوام بہائیں، ٹیکس بھی عوام دیں، ووٹ بھی عوام دیں، لوڈشیڈنگ کا عذاب بھی عوام جھیلیں،ٹماٹربھی عوام نہ کھائیں، چائے بھی عوام نہ پئیں،ایک روٹی پرگزارابھی عوام ہی کریں۔یہ سب کام اگرعوام نے ہی کرنے ہیں توپھرپورے ملک کوخالہ جی کاگھراورداداجی کا میراث سمجھ کردونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے ان کفن چوروں کااقتدارمیں رہنے کا کیا جواز یا کیا کام۔؟ بقول ان کے ملک کے معاشی حالات خراب ہیں ۔ان حالات کوٹھیک کرنے کے لئے انہوں نے مہنگائی پرمہنگائی کے ذریعے غریبوں کی چمڑی تک نکال دی ہے۔ ایک روٹی اورایک کپ چائے کیا۔؟معیشت بہتربنانے کے نام پر انہوں نے غریبوں کو آدھی روٹی اورنیم کپ چائے پینے کے قابل بھی نہیںچھوڑاہے لیکن خودیہ پہلے بھی مزوں میں تھے اب بھی عیش وعشرت اورنشے میں ہیں۔ معیشت کوٹھیک کرنے کے لئے انہوں نے غریب کے منہ سے آخری نوالہ تو چھین لیاہے لیکن اپنے ہزارنوالوں میں سے ایک نوالہ بھی انہوں نے کم نہیں کیا۔ملک میں غریبوں کے لئے مہنگائی،غربت اوربیروزگاری کے سوا کچھ نہیں لیکن ان کے لئے پہلے کی طرح آج بھی ہرشئے وافر مقدار میں موجودہے۔ان کے لئے نوکروں کی کوئی کمی ہے اورنہ چاکروں کی۔گاڑیوں کاکوئی مسئلہ ہے اورنہ باڈی گارڈوں کا۔ان کی توچائے شریف اورکھانابھی وی آئی پی پروٹوکول میں ان تک پہنچتاہے۔یہ ملک اورقوم نہیں صرف اپنی ذات اورمفادکے ساتھ مخلص ہیں۔ان کے جہنم بھرے باقی دنیابے شک بھوک،افلاس اورفاقوں سے مرے ان کاکیا۔؟یہ ملک اورقوم کے ساتھ اگرمخلص ہوتے تویہ پہلے دن ہی گھربارسے سب کچھ اٹھاکرلے آتے اوریہ کہہ کرسامنے رکھتے کہ ملک اورقوم کودینے کے لئے ہمارے پاس یہی کچھ تھاجوہم لے آئے ہیں لیکن یہ لانے والے نہیں ۔یہ تو پچھتہر سال سے خود یہاں سے لیکر جا رہے ہیں۔ وہ کونسی تجوریاں ہیں جوانہوں نے نہیں بھریں۔؟وہ کونسے بریف کیس ہیں جوان کی حرام کاریوں سے محفوظ رہے۔؟یہ آئے خالی ہاتھ لیکن جاتے یہ ہمیشہ پوراخزانہ ساتھ لیکرگئے۔آج اگرخزانہ خالی ہے تویہ بھی انہوں نے ہی توخالی کیاہے۔عمران ہیں یاشہباز،مولاناہیں یازرداری حقیقت میں یہ سب کفن چورہیں ،یہ سیاست اورجمہوریت کے نام پراس ملک اورقوم کے ساتھ وہی کچھ تو کررہے ہیں جوکفن چورکیا کرتے تھے۔