وطن عزیز کی 75ویں سالگرہ تھی، اتنے ہی سال ہوئے جنت ارضی کشمیر کو بھارت کا غلام ہوئے۔ نہ جانے اس سالگرہ پر مجھے بھگت سنگھ پھانسی کے بلیک وارنٹ پر دستخط کرنے والا نواب احمد خان قصوری اور اس کا اپنا قتل کیوں یاد آ گئے۔ یہ ایسا بد نصیب تھا دھرتی کے ایک سپوت کو پھانسی دے گیا، دوسرے قوم پرست گریٹ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا سبب بن گیا۔ جن کے خلاف قتل کے مقدمہ کو دراصل مقدمہ کا قتل کہا جاتا ہے۔ جہاں مسعود محمود یاد آیا وہاں خشونت سنگھ کا والد صوبہ سنگھ بھی یاد آیا، جہاں بھگت سنگھ کا کالا مسیح یاد آیا وہاں تارا مسیح بھی یاد آیا، اودھم سنگھ بھی یاد آیا جس نے جنرل ڈائر کو ہلاک کر کے جلیانوالہ باغ کے بے گناہوں کا بدلہ لے لیا۔ کشمیر کے میر واعظ، برہان وانی، مقبول بٹ بھی یاد آئے۔ بہت کچھ یاد آیا۔ 1970-71 بھی یاد آیا، بھٹو بہادر اور ان کا خاندان بھی یاد آیا۔ کشمیریوں کے ہندوؤں کے ہاتھوں قتل عام، عزت دار گھرانوں کی بچیوں کی آبروریزیاں بھی یاد آئیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی یاد آیا، ایوب خان کے 18 سال آرمی چیف اور 10 سال صدارت کے، یحییٰ کے 3 سال، ضیا کے خونی 11 سال، مشرف کے 9 سال، ہائبرڈ نظام بھی یاد آئے۔ جہاں جسٹس منیر، جسٹس مولوی مشتاق، انوارالحق، جسٹس کھوسہ، جسٹس ثاقب نثار، جسٹس گلزار یاد آئے وہاں جسٹس رستم کیانی، جسٹس کارنیلیئس، جسٹس صمدانی، جسٹس ملک سعید حسن، جسٹس فائز عیسیٰ بھی یاد آئے۔ پی ٹی آئی کی افزائش، سیاسی جماعتوں کی ٹوٹ پھوٹ، نظریاتی جماعتوں کی جدوجہد اور موقع پرستوں کی لوٹ مار بھی یاد آئی۔ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں سے جنم لینے والے سانحات بھی یاد آئے، بیورو کریسی کی انگریز کی غلامی کو بھلا دینے والی قوم کو مسلسل یرغمال رکھنے کی روش بھی سامنے رہی۔ گزرے وقتوں میں انگریز دور کے غدر کا زمانہ بھی اور چوکوں چوراہوں میں پھانسیاں بھی یاد آئیں۔ وطن عزیز کی طرف ہجرت کرنے والوں کے قتل عام کے بعد 1971 میں بنگالیوں کے تین لاکھ سے زائد قتل اور آبروریزیاں بھی یاد آئیں۔ بے آئین زمین کا آئین کا سفر اور پہلا متفقہ آئین دینے والے کے انجام نے بھی بہت کچھ یاد دلایا۔ ایٹمی قوت بنا کر ناقابل تسخیر بنانے والوں کو تسخیر ہوتے دیکھا، جلاوطن ہوتے دیکھا، چوکوں میں گولیوں اور بم دھماکوں کی بھینٹ چڑھتے دیکھا۔ چھوٹی سی تاریخ جو واقعات نہیں سانحات پر
مبنی ہے سب ایک دوسرے پر سبقت لیتے ہوئے آنکھوں کے سامنے سے گزرتے گئے، دماغ کو گھما کر رکھ دیا۔ بدلتے ادوار بھی نظروں سے گزرے ریڈیو سے سوشل میڈیا کا سفر جو کہ دراصل اغیار کا سفر تھا جن کے اس سفر کے ساتھ تربیت بھی ہو چکی ہو گی مگر ہم جو گدھا گاڑی سے یکدم لینڈ کروزر میں بٹھا دیئے گئے، اس میں بیٹھ کر گدھا گاڑی چلانے کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ گورے کی غلامی سے نکلے، ہندو کی غلامی سے بچے اور یہاں پر کالے فرعون کی چیرہ دستیوں کا شکار ہو گئے۔ قائد اعظم نے ساتھیوں سے مل کر ملک دلوا کر احسان کیا، آدھا احسان اتار دیا اب باقی احسان اللہ قائم رکھے، اور نیکی کا بدلہ نیکی سے دیا جائے۔ سبھی دور گزرے مگر جو دور اب گزر رہا ہے اللہ کی پناہ ہے۔ گھر میں بیٹھا ابھی یہ کالم لکھ رہا تھا کہ دل ہلا دینے والی باجوں کی آوازوں نے ایسا کہرام مچایا جیسے قیامت آ گئی ہو، گلی میں ہندوانہ مذہبی ٹچ دیتے ہوئے لونڈے لپاڑوں کی ٹولیاں اوباشوں کے چھوٹے چھوٹے قافلے جو گزر رہے تھے دیکھ کر ہندو دیوتاؤں کی پوجا کے لیے جانے والے بھارت میں جلوسوں کی یاد ماند پڑ گئی۔ یہ مذہبی ٹچ ہمارے ایک پاپولسٹ پولیٹیشن عمران نیازی نے دیا۔ جو مذہب اور آقا کریمؐ کے ذکر اقدس کو تقریری ٹچ قرار دیتا ہے۔ جس نے پورے کیریئر میں ایک سچ نہیں بولا۔ دو کروڑ کے شہر میں چھوٹی سی گراؤنڈ میں آزادی کے تہوار 13-14 اگست کی رات جب لاہور میں ویسے ہی ٹریفک جام ہوا کرتی جلسہ رکھ دیا۔ عدالت نے بھی اجازت دے دی اور وہاں پر آسٹروٹرف نہ ہٹانے کی درخواست پر سوال کیا کہ ہاکی کا دنیا میں کونسا نمبر آیا ہے، شاید ساتواں ہو؟۔ لہٰذا اجازت دے دی ۔ ویسے معزز جج صاحب کے ذہن میں سوال آیا ہو گا یا اس سوال سے پہلے سوال پیدا ہو اہو گا کہ وطن عزیز کی عدلیہ دنیا میں کارکردگی کے اعتبار سے کتنے نمبر پر ہے۔ غریب کا موٹرسائیکل کا چالان معاف نہیں ہوتا جبکہ آئین قانون کو بے توقیر کرنے والے مصنوعی سیاست دان کے لیے سٹیڈیم ہی اکھاڑ کر رکھ دیا گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جب 1986 میں لاہور آئیں تو اس روز دنیا میں صرف ان کا استقبال تھا وطن عزیز کی آبادی 9 کروڑ سے زیادہ نہ تھی اس روز صرف وہی استقبال کو نہ آئے جن کو ہسپتالوں میں ڈاکٹر نے انستھیزیا دے رکھا تھا۔ پھر اکتوبر 2007 کراچی کا استقبال تب وطن عزیز کے عوام 18 کروڑ تھے آج 24 کروڑ لوگ 2 کروڑ لاہور کے باسی اور پونے چار سال میں قوم کی ناؤ ڈبونے والا ایک چھوٹی سی گراؤنڈ میں براجمان ہے کہ کیمرے کی آنکھ لوگوں کو زیادہ دکھا سکے۔ پنجاب کے سب سے بڑے ’’ڈاکو‘‘ بقول عمران نیازی کے، نے پنجاب کا خزانہ ایک ایم این اے کے جلسے پر لگا دیا۔ قومی تہوار پر قومی پرچم اتار کر اس کی جماعت کا پرچم لگا دیا گیا کہ اس نے 12 سیٹوں کے ساتھ 12 کروڑ عوام کے صوبے کا مکھ منتری بنا دیا۔ ماجد خان سے بے وفائی کا سفر جمائما خان، ریحام خان، علیم خان، جہانگیر ترین، چودھری سرور سابق گورنر، عون چودھری، فوزیہ قصوری نہ جانے کون کون لوگ آئے اور گئے کوئی ایک شخص سمیت میاں نوازشریف کے ایسا نہیں جس کو عمران خان نے استعمال نہ کیا ہو اور اس کا بدلہ بے وفائی، جفا اور بدی سے نہ دیا ہو۔ حالانکہ اس کے لیے مذہبی عالم یوتھیے بن گئے۔ کوئی ایک ایسا نہیں جس کا کوئی قصور ہو مگر اس کا نصیب ہے اس کا جھوٹ بھی چلتا ہے۔ ابھی تازہ مثال شہباز گل کی ہے جو بے چارہ ایک ٹی وی چینل پر وہ کہہ گیا جو بقول اس لیڈر کے نہیں کہنا چاہئے تھا یہ کہہ کر دامن چھڑا لیا۔ پی ٹی آئی کی قیادت کو سمجھنا چاہیے کہ فوج ایک ادارہ ہے کسی نے کہا تھا کہ فوج ضروری ہے اگر اپنی نہیں تو پھر دوسرے ملک کی ہو گی۔ ادارے کے طور پر اس کی خدمات ناقابل فراموش اور قابل فخر ہیں۔ یہ دنیا میں چومکھی نہیں سو مکھی لڑائی لڑ رہی جبکہ اسٹیبلشمنٹ ایک الگ بندوبست ہے جو پوری دنیا میں موجود ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے غیر آئینی اقدام پر تنقید ہو سکتی ہے اگر کوئی کر سکے مگر افواج پاکستان جو وطن عزیز کی حفاظت کی ضمانت ہے، کے متعلق بکواس کرنا اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرنے سے بالکل برعکس ہے۔۔۔۔۔ آج قوم کو جس ہم آہنگی کی ضرورت ہے نفرت کی سیاست کرنے والا عمران خان اس کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ کرپشن کے الزام لگانے والا آج خود کرپشن میں سر تک ڈوبا ہوا ہے ورنہ فرح گوگی، الیکشن کمیشن فیصلے پڑھ لیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ خواب میں بھی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید نہیں کر سکتے وہ عمران نیازی کے حامی ہیں، چاہے چند ایک ہیں۔ جن میں پرانی فلمیں بھی ہیں اور نئے چہرے بھی تو خیال گزرتا ہے کہ وطن عزیز کا ناقابل تلافی نقصان کر کے معاشرت، معیشت اور تہذیب برباد کرنے کے بعد بھی اس لونڈوں لپاڑوں پر مبنی ٹولے کی حمایت جاری ہے۔ اے وطن پیارے وطن پاک وطن، تجھے اللہ کریم قائم رکھے تا قیامت۔