قوم رات کو جشن آزادی منا کر سو گئی تھی۔ اب پھر اگلے سال جاگے گی اور پاں پاں کر کے سو جائے گی۔ ان کے لیے آزادی محض اتنی ہے کہ اس دن سفید شلوار اور سبز شرٹ پہن کر باہر نکلا جائے۔ موٹر سائیکل کے سلنسر کی آواز کو تیز کیا جائے۔ چائنہ سے درآمد ہونے والے باجے سے پاں پاں کیا جائے اور رات کو تھک ہار کر سو لیا جائے۔ کوئی تجدید عہد کیا نہ اس دن ہونے والی شہادتوں کا ذکر ہوا۔ سچ پوچھیے تو ہم اس دن یہ ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش میں مصروف رہتے ہیں کہ ہم ابھی آزادی کے قابل نہیں تھے۔ محمد علی جناح نے بہت جلدی ان کو آزادی جیسی نعمت سے سرفراز کر دیا۔ غلامی کی چکی میں پیسے جانے کا مزا اس قوم نے چکھا ہی نہیں تھا تو قدر کیا ہوتی۔ آزادی کی قدر و قیمت پوچھنی ہے تو کشمیریوں سے پوچھیں فلسطینیوں سے سوال کریں وہ آپ کو بتائیں گے۔ اس خطے میں رہنے والوں کو آزادی پلیٹ میں رکھ کر دی گئی تھی۔ ایک رات غلام سوئے اگلے دن آزاد ہو گئے۔ آزاد ہوئے تو دیکھا کچھ بھی نہیں بدلا تھا۔ سب نظام اسی طرح چل رہا تھا۔ قیمت تو ان لوگوں نے چکائی تھی جو ہندو اکثریت کے صوبوں میں اقلیت میں رہ رہے تھے اور پاکستان بنانے کی سزا کے طور پر ان کا گھر بار لوٹ لیا گیا۔ ان کی عزتوں کو تار تار کر دیا گیا۔ ماؤں کے سامنے بچے ذبح کیے گئے اور عورتوں کے سہاگ اجاڑ دئیے گئے۔ راتوں رات وہ گھر سے بے گھر ہو گئے۔ امیر سے فقیر ہو گئے۔ عزت دار منہ چھپاتے پھر رہے تھے۔
سچ بتائیں کہ کتنے ہیں جنہوں نے 1947 کو یاد کیا ہے۔ آٹے میں نمک کے برابر۔ باقی تو آزادی منانے میں مصروف تھے۔ اگر آزادی کا جشن ایسے ہی منانا ہے تو پھر روزانہ رات کو باجے لے کر اپنی اپنی چھتوں پر بیٹھ جایا کریں اور پاں پاں شروع کر دیں۔ استغفار ہی کیا جا سکتا ہے۔ 74 برس گزرنے کے بعد بھی ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔ اقبال نے کہا تھا کہ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔
ہم نے اپنا چلن نہیں بدلا سب کچھ پہلے جیسا بلکہ پہلے سے بھی ابتر۔ ہاں اس ملک میں جس کے پاس اختیار ہے اسے لوٹ مار کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ ملاوٹ کی مکمل آزادی ہے۔ اپنی مرضی کے نرخ وصول کر کے گھٹیا مال بیچنے کی مکمل آزادی ہے۔ کم تولنے کی آزادی ہے۔ کوئی آپ کو نہیں پوچھے گا۔ زیادہ سے زیادہ گھر جا کر کوئی مغلظات ہی بھیج سکتا ہے بھیجنے دو، کیا فرق پڑتا ہے۔ اور ہاں ہاں پاں پاں کرنے اور فل آواز میں ڈیک لگا کر میوزک سننے کی مکمل آزادی ہے۔ دوسروں کا تمسخر اڑانے کی مکمل آزادی ہے۔ ان آزادیوں کی ایک لمبی فہرست ہے اسے یہاں گنوانا مقصود نہیں آپ حسب منشا اس میں اضافہ کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہیں۔
74 برس گزرنے کے بعد بھی ہم مندرجہ بالا کاموں میں مکمل آزاد ہیں لیکن ہماری سوچ پر آج بھی پہرے ہیں۔ ہماری شخصی آزادیوں کا گلہ گھونٹ دیا گیا ہے۔ ہم طاقتور اور مقتدر حلقوں کے کسی غلط کام پر بات بھی نہیں کر سکتے۔ ہماری صحافت آزاد ہے اور نہ صحافی کسی آئینی ادارے کے خلاف بات کرنے کی جرأت کر سکتے ہیں۔ ہاں ان لوگوں کو کمال کی آزادی ہے جو اس ملک کو توڑنے میں شامل ہوں۔ آئین سے کھلواڑ کرنے پر جن کو قومی اعزازات سے نوازا گیا ہو آپ ان کی بات نہیں کر سکتے۔ آپ یہ بات کرنے میں آزاد نہیں ہیں کہ قوم کے ٹیکس کا پیسہ آپ پر لگ رہا ہے تو حساب کتاب بھی دیں۔ آپ ان کی کارکردگی پر سوال اٹھانے میں آزاد نہیں ہیں۔ کوئی اس بات کا جواب دینے کا خود کو مجاز نہیں سمجھتا کہ ذرا اپنے اثاثوں کا حساب کتاب تو دیں۔
آپ نے اس ملک میں رہنا ہے تو چپ کر کے رہیں اور معاملات سے صرف نظر کریں باقی جو پاں پاں کر رہے ہیں ان میں سوال اٹھانے کا شعور ہی نہیں۔ وہ یہ بات کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے کہ اگر ادارے اور شخصیات اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کریں تو ملک کی حالت سدھر سکتی ہے۔ جمہوری اقدار اور اخلاقیات کے خلاف جو مرضی کہیں آپ کو کوئی نہیں پوچھے گا۔ اس ملک میں قوانین عوام کے مفادات سے زیادہ خواص کو فائدہ پہنچانے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ یاد آیا چند ماہ پہلے ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے بی ایس کے بعد پی ایچ ڈی کرنے کی اجازت دے دی تھی سنا ہے کہ اس حکم کو واپس لے لیا گیا۔ کیا اساتذہ کے دباؤ پر ایسا ہوا ہے تو آپ بہت بھولے ہیں، جس کو نوازنا تھا اس کو نواز دیا گیا، گنجائش پیدا کی گئی اور پھر اسے ختم کر کے دوسروں کا راستہ روک دیا گیا۔ یہ صرف اس ادارے میں نہیں ہو رہا ہر جگہ ایسا ہو رہا ہے۔
کوئی یہ سوال کرنے کے لیے تیار نہیں کہ سی پیک کی رفتار کو سست کیوں کیا گیا؟ سی پیک کو پیک کر کے ہم کس کے کھیل میں شامل ہو رہے ہیں۔ چینیوں کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھانے کے بعد اچانک سردمہری چہ معنی دارد۔ یہ سوالات عوام کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے یا وہ اسے اپنی ترجیحات میں شمار نہیں کرتے۔ چلیے یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی مگر یہ بات تو وہ سمجھتے ہیں کہ اتنی تیزی سے ٹیکس کیوں بڑھ رہے ہیں۔ اشیاء ضروریہ کی قیمتوں کو پر کیوں لگ گئے ہیں۔ ہمارے مقتدر رہنما ملک میں غربت تلاش کر رہے ہیں اور یہ سوالات اٹھا رہے ہیں کہ اگر ملک میں غربت ہے تو کارخانوں میں تیار ہونے والی ساری گاڑیاں اور موٹر سائیکل کیوں فروخت ہو گئی ہیں۔ عوام میں یہ شعور ہی نہیں کہ بتا سکے کہ حضور انور پیسے کا ارتکاز جن لوگوں کے پاس ہے وہ گاڑیاں خرید رہے ہیں اور بے چارے عوام اس لیے موٹر سائیکل خرید رہے ہیں کہ پبلک ٹرانسپورٹ ہے نہیں اور جہاں ہے وہ اتنی مہنگی ہے کہ عوام اسے افورڈ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
یہ پاں پاں کرنے والی قوم ہے۔سوال کرنے کے لیے علم کا ہونا ضروری ہے۔ حقائق سے واقف ہونا لازم ہے۔ اس معاشرے میں سمجھدار کی آواز سننے کا کوئی روادار نہیں اور کاٹھ کے الو دانش مندی کا کاروبار کر رہے ہیں۔ ایک مصرعہ یاد آرہا ہے شاید حبیب جالب کا ہے کہ تھانے چلو یا لاڑکانے چلو۔ لاڑکانہ صرف سندھ میں نہیں ہے بلکہ لاہور اسلام آباد کراچی اور پشاور ہر جگہ ایک چھوٹا سا لاڑکانہ ہے۔
صحافی چونکہ پڑھے لکھے تھے اس لیے اس ادارے کو ختم کیا جا رہا ہے اور فیس بک اور ٹوئیٹر پر سرکاری وسائل کے بل بوتے پر ایسے لوگوں کو لایا جا رہا ہے جن کے پاس عقل نام کی کوئی چیز نہیں بلکہ ان کا حال ایسا ہی ہے جیسے ٹیپ ریکارڈر پر ایک کیسٹ لگا دی جائے۔ ہر روز ایک کیسٹ ریلیز ہوتی ہے اور اس کی کاپیاں کر کے چلا دی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ صحافت آزاد ہے۔ صحافی کو مار کر صحافت کو آزاد کرنے کا یہ بات فارمولا لاجواب ہے۔ یہاں سوال کرنے کی نہیں پاں پاں کرنے کی آزادی ہے۔ باقی قومیں آزاد سے آزاد تر ہوتی جا رہی ہیں اور ہم آزاد ہونے کے بعد غلام در غلام ہوتے جا رہے ہیں اور یہ قانون قدرت ہے کہ غلام قومیں اس وقت تک غلام ہی رہتی ہیں جب تک وہ خود اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتیں۔