پیپلز پارٹی کے بھولے بادشاہ قمر زمان کائرہ نے جانے کس موڈ میں کہہ دیا کہ پورے ملک میں تبدیلی کا بخار اتر چکا ہے۔ کہاں اترا ہے؟ بھولے بادشاہ گھر بیٹھے اندازے لگاتے رہتے ہیں۔ بخار ابھی تک 104 ہے۔ اسی لیے ہوشربا مہنگائی کے باوجود صرف کرپشن کے نعروں پر قوم حکمرانوں کے صدقے واری جا رہی ہے۔ بخار اتر چکا ہوتا تو آزاد کشمیر اور سیالکوٹ میں پارٹی کی وہی حالت ہوتی جو 2018ء کے انتخابات کے دوران پنجاب میں پیپلز پارٹی کی ہوئی تھی۔ پیپلز پارٹی میں بھولے بادشاہوں کی اکثریت ہے۔ خوابوں کی سیاست وتیرہ، آنکھ کھلی تو پچھتاوا،سچ جھوٹ سے کوئی غرض نہیں، کسی نے کہا خوابوں کی تعبیر الٹی ہوتی ہے۔ جیالے بولے یہی تو کمال ہے۔ ہمارے لیڈر الٹی تعبیر کو سیدھا کر لیتے ہیں۔ ایک زرداری سب پہ بھاری سب سے رابطے سب سے ہیلو ہیلو، یہ ہیلو ہیلو وقت پر کام آتے ہیں اور بات بن جاتی ہے۔ ماضی میں کیا کیا کرشمے دکھائے ہیں۔ آزاد کشمیر میں حکمران پارٹی کی بھاگ دوڑ اور عوام کی سوچ کے دریائوں کا رخ موڑنے کی کوششوں کے باوجود پیپلز پارٹی گیارہ سیٹیں لے کر سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی بن گئی۔ یہاں تک تو پہنچے یہاں تک تو آئے۔‘‘ پیپلز پارٹی کو صرف سندھ کی پارٹی کہنے والے پریشان تو ہوئے ہوں گے ،کہنے والے نے کہا جہاں تک خوابوں کی تعبیر کو سیدھا کرنے کا معاملہ ہے اس سے مہلت تو مل جاتی ہے۔ حالات نہیں بدلتے اس کے لیے خود کو بدلنا پڑتا ہے جبکہ ہمارے سیاستدان ’’خود بدلتے نہیں اوروں کو بدل دیتے ہیں‘‘۔ اوروں کا معاملہ بھی عجیب ہے، بدل جائیں یا پالیسیاں بدل لیں تو اقتدار جھولی میں ڈال دیں۔ نہ بدلیں تو اپوزیشن میں رکھ کر حکمران پارٹی کے پیچھے لگا دیں جو ہر وقت ان ہائوس تبدیلی کی رٹ لگاکر خوفزدہ کرتی رہے یا پھر بندہ پانچ سال جیل بھگتے، ضمانتیں کراتا پھرے’’ پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں، اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی‘‘۔ عزت سادات پر یاد آیا کہ ریورس گیئر لگنے پر بندہ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔ اقتدار میں جھک کر سلام کرنے والے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آپا فردوس کس طمطراق سے اقتدار کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھیں۔ پائوں پھسلا نیچے گریں، سلام کرنے والوں نے پنجاب اسمبلی میں داخل ہونے سے روک دیا۔ لوگ اندرونی کہانیاں ڈھونڈنے لگے۔ کسی نے کہا آپا نے ق لیگ کے کسی رکن کو پی ٹی آئی کا رستہ دکھایا تھا سپیکر ناراض ہوگئے اور اسمبلی میں گھسنے سے منع کردیا دوسروں نے کہانی سنائی کہ حضرت بزدار (اللہ انہیں ان ہائوس تبدیلی سے بچائے) کسی بات پر ناراض ہوگئے۔ صوبہ کے مدار المہام ہیں ناراض ہونا بنیادی حق اور استحقاق ہے ،آپا کو وضاحت کے لیے طلب کیا آپا پہنچ گئیں۔ حضرت جی غائب ہوگئے آپا تین گھنٹے انتظار کرتی رہیں بعد میں استعفیٰ طلب کرلیا گیا۔ بعد کے دنوں میں صرف طفل تسلیاں، سیاست میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ آپا ’’پچھلے جنم‘‘ یعنی ماضی قریب تک پیپلز پارٹی سے جڑی رہیں۔ بھولی بھالی رہنما تھیں۔ (خدانخواستہ بھولی کو بھولو کی تانیث نہ سمجھا جائے) بھول چوک میں خاصا عرصہ ساتھ رہیں اچانک اگلا چوک یاد آیا تو پی ٹی آئی میں شامل ہوگئیں، اگلی منزل اسلام آباد ، اقتدار آنی جانی چیز ہے ’’جانے والی چیز کا غم کیا کریں‘‘۔ بات سے بات نکلتی چلی گئی عرض کر رہے تھے کہ تبدیلی کا بخار ابھی نہیں اترا، جانے بلاول بھٹو اتنے پر اعتماد کیوں ہیں، ایک چھلانگ نے پی ڈی ایم کا بیڑا غرق کردیا۔ استعفوں کی اتنی جلدی تھی کہ اپنے ساتھ اے این پی والوں کو بھی لے بھاگے ،کون سمجھائے کہ شوکاز نوٹس ن لیگ نے نہیں پی ڈی ایم کی طرف سے دیا گیا تھا۔ اعتراض تھا تو کسی بھی اجلاس میں سب کے سامنے پیش کرتے ن لیگ کو بے نقط سناتے اور جی ہلکا کرلیتے جانے کی کیا جلدی تھی، استعفے دھرنے سب دھرے رہ گئے۔ تحریک عدم اعتماد مفروضہ بن گئی۔ اب واپسی کی جلدی ہے ن لیگ کو ان ہائوس تبدیلی کی تجویز دی ہے مل کے کھیلیں۔ تجویز کہاں سے آئی؟ ان ہائوس تبدیلی یا تحریک عدم اعتماد کا تبدیلی کے بخار کا گہرا تعلق ہے۔ حکمران اتحاد کے پاس 173 اور ساری اپوزیشن جماعتوں کی جھولی میں 156 ارکان، تبدیلی بظاہر نا ممکن، جہانگیر ترین گروپ پر انحصار فضول، انہیں تحریک عدم اعتماد سے زیادہ شوگر ملوں کی فکر ہے۔ شہزاد اکبر ایک بندہ توڑ کر لے گئے۔ کہیں نہ کہیں سے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ بال بیکا نہیں ہوگا۔ اسی لیے پورا گروپ مخالفانہ بیانات اور استعفوں کی دھمکیوں کے باوجود ساتھ رہنے پر مجبور ہے۔ ساتھ نہ دیتے تو جانے اب تک کیا ہوچکا ہوتا۔ دونوں بڑی اپوزیشن پارٹیوں میں واضح طور پر اعتماد کا فقدان ہے۔ شاہد خاقان عباسی کی بات میں وزن ہے کہ سودے بازی کے بغیر ان ہائوس تبدیلی یا تحریک عدم اعتماد میں کامیابی ممکن نہیں۔ بقول ایک تجزیہ کاردھوپ چھائوں کے موسم میں سیاسی ماحول کروٹیں ضرور بدل رہا ہے۔ لیکن سیاسی منظر نامے میں فوری تبدیلی دور دور نظر نہیں آتی۔ سندھ کے وزیر منظور وسان کے خواب دل بہلاوے کا سامان ہیں۔ سیاسی غلطیوں کے دور رس اثرات ہوتے ہیں۔ پی ڈی ایم کے حصے بخرے ہونے کے بعد اپوزیشن کے سارے خواب بکھر گئے ہیں۔ عوام مایوس ہوئے ہیں۔ بقول شخصے۔ ’’ذرا سا وقت گزر جائے غفلتوں میں اگر، تو اچھے اچھوں کو پھر ہاتھ ملنا پڑتے ہیں‘‘ مولانا فضل الرحمان اور شہباز شریف دونوں خاصی سوچ بچار کے بعد میدان میں اترے ہیں۔ لیکن میدان میںپہلے سے لشکر جرار موجود ہے اگر چہ پورا لشکر گفتار کا غازی ہے تقریروں، ٹوئٹس اور میڈیا وار میں ماہر لیکن اب بھی 56 فیصد عوام تبدیلی کے بخار میں مبتلا ہیں اور شیخ رشید کا دعویٰ ہوائی نہیں کہ عمران خان ٹکا کے پانچ سال پورے کریں گے۔ مگر شیخ صاحب کو بھی مہنگائی کا دھڑکا لگا ہے۔ بار بار کہہ چکے ہیں کہ اپوزیشن سے خطرہ نہیں حکومت کو مہنگائی سے خطرہ ہے۔ حکومتی دعوے برحق۔ معیشت مستحکم، خسارہ کم زر مبادلہ کے ذخائر تاریخ کی بلند ترین سطح پر، جی ڈی پی گروتھ 4 فیصد لیکن مہنگائی 12 سے 13 فیصد افراط زر بے قابو عوام کی جیبیں خالی ہو رہی ہیں۔ دیگر ذرائع استعمال کیے جا رہے ہیں جیبیں خالی ہوگئیں تو کرپشن کے نعروں کے باوجود تبدیلی کا بخار اتر جائے گا۔ فرض کیجیے (فرض کرنے میں کوئی حرج نہیں) تبدیلی کا بخار اتر گیا تو کیا تبدیلی ہوگی۔ قضا و قدر کے فرشتوں کی نظریں پنجاب پر مرکوز ہوں گی۔ پنجاب سے ہی متبادل ڈھونڈا جائے گا۔ ن لیگ کو ابھی تک ’’کلیئرنس سرٹیفکیٹ یا پروانہ راہداری‘‘ نہیں ملا۔ دو بیانیوں میں پھنسی ہے دوسری متبادل ق لیگ ہے جس کی اقتدار کے لیے رال ٹپک رہی ہے حکم صادر ہوا تو ن لیگ کے کتنے ارکان چودھریوں کے ’’مہمان خانے‘‘ کا رخ کریں گے؟ تعداد پوری ہوگئی تو تبدیلی کا بخار اترنا شروع ہوگا۔ شیخ رشید اور دیگر معززین حالات کی دھوپ میں اپنے قبلے کا تعین کریں گے۔ ہم دور بیٹھے ہیں لیکن قرب و جوار کے لوگوں کا کہنا ہے کہ کہیں نہ کہیں فیصلہ لکھا جا رہا ہے۔ شنید ہے کہ ’’سیاسی خوشنما منظر بدلتے جا رہے ہیں ہمارے عہد کے مہتاب ڈھلتے جا رہے ہیں‘‘ (واللہ اعلم بالصواب)