کابل: طالبان نے جنگ کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے عالمی طاقتوں کو مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں امن وعامہ کا قیام ان کی اولین ترجیح ہے۔ طالبان رہنماؤں نے خونریزی کے بغیر کابل فتح کرنے پر خوش کا اظہار کیا ہے۔ امارات اسلامیہ کے قیام کیلئے مشاورت کی جا رہی ہے۔
طالبان رہنما عبدالقیوم ذاکر کا صدارتی محل میں عرب ٹی وی سے گفتگو میں کہنا تھا کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ مشاورت سے کریں گے۔ طالبان رہنما ملا ہیبت اللہ اور ان کے معاونین افغانستان میں ہیں۔ سیکیورٹی انتظامات کے بعد ملا ہیبت اللہ کابل آئیں گے۔
ادھر طالبان ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک وقوم کیلئے آزادی کا مقصد حاصل کر لیا گیا ہے۔ امید ہے کہ بیرونی قوتیں ماضی کو نہیں دہرائیں گے، ہم مذاکرات کے ذریعے تمام ممالک کے خدشات دور کرنے کیلئے تیار ہیں۔
ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ ہم افغانستان میں ایک ایسی نئی حکومت کا قیام چاہتے ہیں جس میں تمام گروپس کی نمائندگی ہو۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں عالمی میڈیا کے خدشات کو دور کرتے ہوئے کہا کہ امارات اسلامیہ کی حکومت میں کسی سے کوئی بدلہ نہیں لیا جائے گا، ہم کام کرنے اور تعلیم کی آزادی دیں گے۔ ہماری حکومت خواتین کے حقوق کا احترام کرے گی۔
خیال رہے کہ سابق افغان صدر اشرف غنی گزشتہ روز طالبان کے خوف سے ملک چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے۔ افغان عوام ان کے اس فیصلے پر بہت سیخ پا ہیں اور انھیں ڈرپورک اور وطن دشمن کے تانے دے رہے ہیں۔
تاہم اشرف غنی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے صرف خون ریزی سے بچنے کیلئے افغانستان کو خیر باد کہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب طالبان پورے ملک پر قابض ہو چکے ہیں۔ عوام کی عزت، آبرو اور جان ومال کی مکمل حفاظت کرنا ان کا فرض بنتا ہے۔ دوسری جانب افغانستان کے اہم رہنما عبداللہ عبداللہ نے بھی سابق صدر کے اس اقدام پر کڑی تنقید کی تھی۔
ادھر خبریں ہیں کہ امریکا نے اپنے عملے اور شہریوں کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنانے کیلئے مزید ایک ہزار فوجی افغانستان بھیج دیئے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں طالبان کو متنبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ اگر ہمارے ساتھیوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرینگے تو انھیں بھرپور جواب دیا جائے گا۔