تہران : ایران اور امریکہ کے درمیان عمان میں ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کے پہلے دور کے بعد ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابتدائی بات چیت ٹھیک طریقے سے ہوئی، مگر ان کے مطابق ان مذاکرات کا نتیجہ نکلنا یا نہ نکلنا دونوں ممکن ہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا تھا، "ہم نے ابتدائی بات چیت مثبت انداز میں کی، لیکن ہمیں دوسرے فریق (امریکہ) سے زیادہ امید نہیں ہے، البتہ ہمیں اپنی صلاحیتوں پر مکمل اعتماد ہے۔" یاد رہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے سفارتی تعلقات منقطع ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں کچھ مواقع پر بالواسطہ مذاکرات ہوتے رہے ہیں۔ یہ تازہ مذاکرات عمان کی ثالثی میں ہو رہے ہیں۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے بھی مذاکرات کو "مثبت" اور "تعمیری" قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے مرحلے میں دونوں ممالک کے وفود کے درمیان ماحول بہتر رہا اور اختتام سے قبل مختصر طور پر براہِ راست بھی بات ہوئی۔
دوسری جانب، مذاکرات کے ساتھ ہی کشیدگی بھی کم نہیں ہوئی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے دی ہے۔ ساتھ ہی ایرانی قیادت کو "انتہا پسند" قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران کو جوہری ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس کے جواب میں ایران نے واضح کیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن مقاصد اور توانائی کی پیداوار کے لیے ہے، نہ کہ ہتھیار بنانے کے لیے۔