اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو بریفنگ دیتے ہوئے لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے انکشاف کیا ہے کہ غیر ملکی ایجنسیاں لوگوں کو لاپتہ کرکے ہمارے خفیہ اداروں پر الزام لگانا چاہتی ہیں، لاپتہ افراد میں سے 70 فیصد دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہیں، لاپتہ افراد میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے پاک فوج کے جوانوں کے سر سے فٹ بال کھیلے۔
پیر کو اسلام آباد میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس چیئرمین بابر نواز خان کی عدم موجودگی میں زہرہ ودود فاطمی کی زیر صدارت پارلیمنٹ لاجز میں ہوا۔ اجلاس میں ملک میں لاپتہ افراد کے حوالے لاپتہ افراد کمیشن کے چیئرمین جسٹس ( ر) جاوید اقبال نے بتایا کہ اکثر بازیاب ہونے والے لاپتہ افراد خوف کی وجہ سے کمیشن کے سامنے واقعات سنانے سے اجتناب کرتے ہیں، لاپتہ افراد میں سے 70 فیصد سے زائد لوگ عسکریت پسندی میں ملوث پائے گئے، اگر کوئی شخص دہشت گرد ہے تو اس کا مطلب نہیں کہ اس کے گھر والے بھی دہشت گرد ہیں، لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی ذمہ داری ریاست کی ہے۔
جسٹس (ر)جاوید اقبال نے بتایا کہ ایم کیو ایم کی قیادت کی اپنے لاپتہ افراد معاملے میں عدم دلچسپی رہی، سب جانتے ہیں ایم کیو ایم کو حکومت کا بھی موقع ملا اور عشرت العباد گورنر سندھ رہے لیکن اختیار ملنے کے باوجود ایم کیو ایم نے اپنے لاپتہ افراد کی بازیابی میں سنجیدگی ظاہر نہیں کی، ایم کیو ایم کے بعض لاپتہ افراد کا 20 سال گزرنے کے باوجود تاحال پتہ نہیں چل سکا، عشرت العباد نے لاپتہ افراد کے لواحقین کو پلاٹ اور ایک نوکری دی اور معاملہ ختم کر دیا۔ جسٹس(ر) جاوید اقبال کے مطابق اس وقت ایم کیو ایم کے 14 لاپتہ افراد کے کیسز کمیشن کے پاس ہیں، ایم کیو ایم کے لاپتہ افراد کی تعداد خطرناک حد تک تجاوز کر گئی ہے، اس حوالے سے اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے۔ کمیشن کے پاس ایم کیو ایم کارکنان کے 29 کیسز زیر التوا ہیں ، جو 1992 سے 1995 تک کے ہیں۔
جسٹس (ر)جاوید اقبال نے بتایا کہ مشرف دور حکومت میں وزیر داخلہ آفتاب شیرپا نے چار ہزار پاکستانی غیر ملکیوں کے حوالے کئے، پرویز مشرف نے پاکستانیوں کو غیر ملکیوں کے حوالے کرنے کا اعتراف بھی کیا ، مشرف اور شیرپاﺅ کے اقدامات کے خلاف پارلیمنٹ میں آواز نہیں اٹھائی گئی، پارلیمنٹ کو مشرف اور شیرپاو کے اقدامات کی تحقیقات کروانی چاہئے تھی، پوچھا جانا چاہئے تھا کہ آخر کس قانون کے تحت پاکستانیوں کو غیر ملکیوں کے حوالے کیا گیا، ملک میں پارلیمنٹ، آئین، عدالتیں ہونے کے باوجود کیسے کسی پاکستانی کو غیر ملک کے حوالے کیا گیا۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بتایا کہ حوالگی کا کوئی معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستانیوں کو خفیہ طریقے سے غیر ملکیوں کے حوالے کیا گیا جس کے عوض ڈالرز حاصل کئے گئے، یہ نہ پوچھا جائے کہ کتنے ڈالرز ملے، ملک دشمن ایجنسیز بھی لاپتہ افراد کے معاملے میں ملوث رہی ہیں، یہ ایجنسیز لوگوں کو اٹھا کر آئی ایس آئی اور ایم آئی پر الزام لگانا چاہتی ہیں۔
جسٹس(ر) جاوید اقبال نے کہا کہ غیر ملکی این جی اوز پر پابندی کے حق میں ہوں، کیونکہ یہ ملک کی بجائے غیر ملکیوں کے مفاد میں کام کر رہی ہیں، انہیں فنڈنگ بھی غیر ملکیوں سے مل رہی ہے۔