اسلام آباد : پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سینیٹ اور قومی اسمبلی کےاجلاس طلب کر لئے گئے ہیں۔
قومی اسمبلی کا اجلاس 11بجے شروع ہوگا جس کا 6 نکاتی ایجنڈا جاری کیا جا چکا ہے۔ذرائع کے مطابق آج کے ایجنڈے میں بھی آئینی ترمیم کو پیش کرنا شامل نہیں ہیں ،آئینی ترمیم سپلیمنٹری ایجنڈے کے طور پر پیش کی جائےگی ۔
دوسری جانب سینیٹ کا اجلاس آ ج سہہ پہر تین بجے ہوگا جس کا 5 نکاتی ایجنڈاجا ری کیا گیا ہے ۔ذرائع کےمطابق اجلاس کے آج کے ایجنڈا میں بھی آئینی ترامیم سے متعلق ایجنڈا آٹئم شامل نہیں ہیں ، جبکہ قائد ایوان اسحاق ڈار کی وقفہ سوالات معطل کرنے سے متعلق تحریک ایجنڈے کا حصہ ہیں۔
اس کے علا وہ سینیٹ اجلاس کے ایجنڈے میں 2 توجہ دلاؤ نوٹس بھی کاروائی کا حصہ ہیں ،ایوان میں صدارتی خطاب پر صدر پاکستان کے تشکر سے متعلق تحریک بھی ایجنڈے میں شامل ہیں ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم منظور کروانے کے لیے حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت یعنی 224 ارکان کی حمایت حاصل کرنا ہو گی، اگر حکومتی اتحادیوں کے کُل نمبروں کا جائزہ لیں تو اس وقت حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے پاس 213 ووٹ موجود ہیں۔
ان ارکان میں مسلم لیگ ن کے 111، پاکستان پیپلز پارٹی کے 68 اور متحدہ قومی موومنٹ کے 22 ووٹ شامل ہیں۔حکمران اتحاد میں شامل پاکستان مسلم لیگ ق کے پاس 5 ووٹ ہیں، استحکام پاکستان پارٹی کے ممبران قومی اسمبلی کی تعداد چار ہے جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور ضیا الحق پارٹی کا ایک ایک رکن بھی حکومتی اتحادیوں میں شامل ہے۔
اس وقت قومی اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ارکان کی تعداد آٹھ ہے۔ اگر حکومت کو قومی اسمبلی میں مولانا فضل الرحمان کی جماعت کی حمایت حاصل ہو جاتی ہے تو اُن کے پاس ترامیم کے حق میں یہ نمبرز 221 ہو جائیں گے۔جے یو آئی کی حمایت کے باوجود حکومت قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کر سکتی۔
دوسری جانب سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو 64 اراکین کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے، اس وقت سینیٹ میں حکومتی اتحادی جماعتوں کو 55 سنیٹرز کی حمایت حاصل ہے۔ ان میں ن لیگ کے 19 اور پیپلز پارٹی کے 24 سینیٹرز شامل ہیں جبکہ اُنہیں بلوچستان عوامی پارٹی کے چار، متحدہ قومی موومنٹ کے تین اور پانچ آزاد اراکین کی بھی حمایت حاصل ہے۔
یہاں بھی حکمران اتحاد کو آئینی ترمیم کے لیے مولانا کی ضرورت ستانے لگی ہے، ان کے 5 ارکان سمیت مزید 4 ووٹوں کی بھی ضرورت حکمران اتحاد کو لازمی درکار ہوگی۔