اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے نیب ترمیمی کیس میں اپنا اختلافی نوٹ لکھا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ کیس میں سوال غیر قانونی ترامیم کا نہیں بلکہ 24 کروڑ عوام کی نمائندہ پارلیمنٹ کی بالادستی کا تھا۔ نیب ترامیم کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست مسترد کرتا ہوں ! پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے ! پارلیمنٹ ہی اپنے بنائے ہوئے قوانین میں ترمیم یا تبدیلی کر سکتی ہے !
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ کیس میں سوال غیر قانونی ترامیم کا نہیں بلکہ پارلیمنٹ کی بالادستی کا تھا ! گزشتہ رات مجھے اکثریتی فیصلے سے متعلق آگاہ کیا گیا ! وقت کی کمی کے باعث فی الحال تفصیلی وجوہات بیان نہیں کر رہا۔
انہوں نے کہا کہ اکثریتی فیصلہ میری عاجزانہ رائے میں آئینی اسکیم کیخلاف ہے ! آئین کے مطابق ریاست اپنی طاقت اور اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی ! اکثریتی فیصلہ اختیارات کے "TRICHOTOMY" کے اصول کو تسلیم کرنے میں ناکام رہا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جو پارلیمنٹ ایک قانون بنا سکتی ہے وہ اس میں ترمیم بھی کر سکتی ہے اور اس کو مکمل ختم بھی کر سکتی ہے۔ پارلیمنٹ کی اکثریت کے فیصلے کو پارلیمان چھوڑ کے آنے والے ایک شخص کی درخواست پر کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ میں نے گزشتہ رات اکثریتی فیصلہ پڑھا ۔میں اکثریتی فیصلے سے اتفاق نہیں کرتا۔ وقت کی کمی کے باعث اپنے اختلافی نوٹ کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کرونگا۔بنیادی سوال نیب ترامیم کا نہیں بلکہ 24 کروڑ عوام کی منتخب پارلیمنٹ کی بالادستی کا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ بنیادی سوال پارلیمانی جمہوریت میں آئین کی اہمیت اور ریاست کے اختیارات کی تقسیم کا ہے۔بنیادی سوال بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے بغیر غیر منتخب ججز کا پارلیمنٹ کے پاس کردہ قانون پر فیصلہ سازی کی حدود سے متعلق ہے۔میری رائے میں اکثریتی فیصلہ یہ سمجھنے میں ناکام رہا کہ ریاست کے اختیارات عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کیے جائیں گے ۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ اکثریتی فیصلہ آئین میں دی گئی اختیارات کی تقسیم کی مثلث کو سمجھنے میں بھی ناکام رہا جو جمہوری نظام کی بنیاد ہے۔کیس میں سوال غیر قانونی ترامیم کا نہیں پارلیمنٹ کی بالادستی کا تھا۔اکثریتی فیصلہ پارلیمنٹ کے اختیارات کو سمجھنے میں ناکام رہا۔پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار کبھی ختم نہیں ہوتا۔