سول سروس کے دو بہت ہی اچھے افسران،چیف سیکرٹری پنجاب کامران علی افضل اورسیکرٹری خزانہ افتخار امجد پنجاب چھوڑ کر جا رہے ہیں، دونوں بہت ہی محنتی، ایماندار اور اپ رائٹ افسر ہیں،جہاں بھی جائیں گے کوئی بہت اچھا عہدہ ان کا منتظر ہوگا، دونوں اچھے افسروں نے شائد ہر جگہ اکٹھے کام کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے اس لئے کامران علی افضل کے پنجاب سے جانے کے فیصلے کے بعد افتخار امجد نے بھی یہاں نہ رہنے کا فیصلہ کیا بلکہ اپنا آرڈر،کامران صاحب کے آرڈر سے پہلے حاصل کر لیا۔چیف سیکرٹری کامران علی افضل نے پنجاب میں ٹاپ لیول پر ایک بہت اچھی بیوروکریٹک ٹیم بنا لی تھی،جس کی وجہ سے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے تھے، مگر اپنے دفتری کاموں اور انتظامی معاملات میں بڑہتی ہوئی سیاسی مداخلت نے ایک نستعلیق،درد دل رکھنے والے اور کتاب کے مطابق چلنے والے بیوروکریٹ کو پنجاب سے جانے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے پنجاب میں تین وزرائے اعلیٰ کے ساتھ اچھا کام کیا،اب بھی وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ ان کے بہت اچھے تعلقات کار تھے مگر دو جماعتی اتحاد کی حکومت کی طرف سے بعض کاموں کی ڈیمانڈ وہ پوری نہ کر سکتے تھے اس لئے اپنے لئے واپسی کا باعزت راستہ چن لیا۔
میں سوچ رہا ہوں کہ سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے درمیان محاذآرائی اور تعلقات کا ر میں اتار چڑھاو کیوں آتے جاتے رہتے ہیں؟ کسی بھی مملکت کو احسن طریقے سے چلانے، موثر حکمت عملی وضع کرنے اور اسکے نفاذ میں اس مکالمے کو بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے، کہ سیاستدان اور بیوروکریسی کا کردار کیسا ہونا چاہئے؟ میری نظر میں بیوروکریسی، امور مملکت چلانے کیلئے ضروری ہے،بیوروکریسی حکومتی ڈھانچے کا لازم و ملزوم ہے تو سیاستدان پالیسی سازی کا منبع ہیں،ہم کہ سکتے ہیں کہ سیاستدان اور بیوروکریسی ایک گاڑی کے دو پہئے یا دریا کے دو کنارے ہیں،گاڑی کا ایک پہئیہ خراب ہو تو گاڑی نہیں چل سکتی،اسی طرح دریا کے کناروں کی رکاوٹ دور ہو جائے تو پانی بستیوں میں نکل کر تباہی پھیلا دیتا ہے، دیکھا جائے تو ریاستی امور چلانے میں حکومتی کردار پالیسی سازی، اقدامات تجویز کرنا ہے عملدرآمد مگر بیوروکریسی کو کرانا ہوتا ہے،اسی لئے اسے انتظامیہ کا نام دیا جاتا ہے،تاہم اس کا انحصار حکومتی ڈھانچے پر ہے کہ وہ بیوروکریسی کوکیا کردار تفویض کرتا ہے، ترقی یافتہ ممالک میں تو بیوروکریسی ا چھا کردار ادا کر رہی ہے مگر ترقی پذیر ممالک میں صورتحال اس کے برعکس ہے،بیوروکریسی کو بروئے کار لائے بغیر کوئی حکومت چل سکتی ہے نہ ریاستی امور کی انجام دہی ممکن ہے،اس کیلئے سیاستدانوں اور بیوروکریسی میں ایک انتظامی میثاق کی ضرورت ہے،گزشتہ کچھ عرصہ سے اس کی ضرورت بہت زیادہ ہو گئی ہے اب اس حوالے سے پبلک میں بھی بحث مباحثہ ہو رہا ہے سنجیدہ اور با شعور طبقات تو ایک مدت سے کسی ضابطہ کار کا تقاضا کر رہے ہیں۔
سیاستدان اور بیوروکریسی میں ایسا کوئی معاہدہ ناممکن نہیں کہ ہر ایک کردار آئین میں طے شدہ ہے،بیوروکریسی آئین کیساتھ محکمانہ قواعد و ضوابط کی بھی پابند ہوتی ہے،خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی فریق اپنی حدود اختیار سے باہر جا کر مداخلت کرتا ہے یا اپنی بات منوانے کیلئے خلاف قاعدہ فعل پر مجبور کرتا ہے،اصل ضرورت اس حوالے سے حدود و قیود کے تعین کی ہے،اگر چہ بڑی حد تک یہ طے شدہ ہیں،مگر فریقین کو ان حدود و قیود میں رکھنے کیلئے ایک اخلاقی معاہدہ کی ضرورت ہے،پوری دنیا میں بیورو کریسی کا اصل کام حکومت وقت کے قواعد و ضوابط کو بھرپور لگن اور دیانتداری سے نافذ کرنا ہوتا ہے،عوام کے وسیع تر مفاد میں سول ملازم کی حیثیت سے نظام حکومت چلانا بیورو کریسی کے فرائض میں شامل ہے، ہمارے نظام میں سیاستدان لمبے عرصہ کیلئے حکومت میں نہیں رہ سکتے مگر بیوروکریسی کم از کم 25سال تک خدمات انجام دیتی ہے،س لئے بیوروکریسی بہتر انداز میں زیادہ عرصے کیلئے حکومتی نظا م کی دیکھ بھال کر سکتی ہے،قواعد و ضوابط وضع کرنے کی ذمہ داری بیورو کریسی کی نہیں ہو تی البتہ وہ اس عمل میں حکومت وقت کی معاون ضرور ہو سکتی ہے،عوام کا منتخب نمائندہ ہونے کی حیثیت سے سیاستدانوں کو قواعد و ضوابط وضع کرنے چاہئے مگر سیاسی قیادت نے بیورو کریسی کو سول ملازم سے ذاتی ملازم بنا دیا ہے،اس رویہ اور طرز حکمرانی نے بہت سی خرابیوں کو جنم دیا۔
بیورو کریسی کے مزاج میں آئین پر عملدرآمد بارے سختی اور غیر لچکدار رویہ بہت نمایاں ہوتاہے،مگر سیاسی مداخلت سے ان کے کام کرنے کا اندازغیر منطقی ہو جاتا ہے،وقار سے مدت ملازمت پوری کرنے کیلئے سیاسی سہارے تلاش کرنا اس کی مجبوری بن جاتی ہے،منتخب عوامی نمائندے کا براہ راست عوام سے تعلق ہوتا ہے اور اس نے واپس انہی کی طرف لوٹ کر جانا ہوتا ہے اسکے برعکس بیوروکریسی عوامی جذبات اور امنگوں سے نابلد اور قواعد کی پابند ہوتی ہے، جذبات کا ان کے فرائض میں زیادہ عمل دخل نہیں ہوتا،شائد اسی لئے قواعد و ضوابط مرتب کرنے کا اختیار اسے نہیں دیا جاتا اور اس کی ذمہ داری عملدرآمد تک محدود ہے۔
بیوروکریسی کے کردار کو ملکی ترقی کیلئے موثر اور نتیجہ خیز بنانے کیلئے ضروری ہے کہ بیورو کریسی کو سیاسی اور پارٹی مفادات کیلئے استعمال کرنے کی بجائے اسکی صلاحیتوں سے عوام کوسہولیات بہم پہنچائی جائیں،ملکی اور عوامی مفادات کے تناظر میں قانون سازی کے عمل کو وہی پارلیمنٹ بہتر انداز میں آگے بڑھ سکتی ہے جو عوام کے مسائل کا نہ صرف ادراک رکھتی ہو بلکہ انہیں حل کرنے کی صلاحیت سے بھی مالا مال ہو، اس لئے بیوروکریسی کے کردار کو بہتر بنانے کیلئے مضبوط اور مؤثر پارلیمنٹ کا وجود بہت ضروری ہے،کامیاب ریاست کیلئے ضروری ہے کہ مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ ایک دوسرے سے متصادم ہونے کی بجائے معاون ہوں، ان اداروں کا باہمی تعاون ہی عوام کو ایک اچھی حکومت دینے میں کامیاب ہو سکتا ہے،مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی حکمرانوں اور بیوروکریسی میں اعتماد پر مبنی مضبوط تعلق،خود کار رابطہ اور کام کرنے میں یکسانیت ہو،مگر اب یہ آسانی سے ممکن نہیں،اس کیلئے معاملات کو طے کرنا ہو گا،دونوں کے حدود و اختیار کا از سر نو تعین کرنا ہو گا،اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ کوئی دوسرے کے کام میں مداخلت نہ کرے،انتظامیہ کو ذاتی کے بجائے ریاستی ملازم سمجھا جائے،ٹاسک دینے کے بعدکاکردگی دکھانے کیلئے مخصوص مدت تک مہلت دی جائے،اچھی کارکردگی پر اعزاز واکرام سے نوازا جائے،ٹاسک حاصل نہ کرنے والوں کو مزید مہلت دی جائے،اپنی ناکامی ناہلی کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے کی روش سے کنارہ کر کے ایک دوجے کا معاون مددگار بن کے عوام کو سہولیات دینے کی سعی کی جائے،سیاسی حکمران اور بیوروکریسی ایک ٹیم بن کر ملک اور قوم کی خدمت کریں گے تو کامیابی یقینی ہو گی اور پھر کامران علی افضل جیسے افسروں کو خود ہی چھوڑ کر واپس نہیں جانا پڑے گا۔