اعلائے کلمۃ الحق کے حق میں نعرہ بلند کرنے والوں کے پاس شاید صدائے کلمۃ الحق کی طرف متوجہ ہونے کی فرصت نہیں ہوتی۔ اپنی فہم دین کے مطابق وہ دینی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں اور جلد از جلد چاہتے ہیں‘ خواہ اس کے لیے انہیں کوئی بھی راستہ اختیار کرنا پڑے ‘ وہ بے دھڑک اختیارکرتے چلے جاتے ہیں، وہ اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے ہر قسم کی قوت کے ساتھ اشتراک و اتحاد کے قائل ہیں‘ خواہ اِس جدو جہد میں مقصود‘ مفقود ہی کیوں نہ ہو جائے۔
سوال یہ ہے کہ ہم پہلے سے بنی ہوئی مسجد کیوں گرانا چاہتے ہیں ،پہلے سے تعمیر اور زیر تعمیر ملک میں نظام اور نفاذ کے نام پر تخریب کیوں بپا کرناچاہتے ہیں۔ پہلے سے تعمیر شدہ پارلیمینٹ کو آخر مسمار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ہم اسے مزید اسلامی پارلیمان بنا نا چاہتے ہیں تو بہتر ہے‘ یہاں تزکیہ شدہ اراکین بھجوا دیئے جائیں ، یا پھر موجود اراکین میں خدا خوفی کا درس دیا جائے ، انہیں امانت اور دیانت کا سبق پڑھا دیا جائے۔ اگر کسی ادارے کا سربراہ نیک ہو گا تو نیکی کے اثرات لامحالہ پورے ادارے پر مرتب ہوں گے۔ الغرض فرد کی تعمیر ہی سے ملت کی تعمیر ممکن ہے۔ ملت کا تصور افرادِ ملت کے بغیر بھی ممکن ہے کیا؟ کیا اسلام کا قیام مسلمانوں کو خارج از اسلام کرنے کے بعد بھی ممکن ہے؟ اسلام بذاتِ خود جماعت المسلمین ہے، جماعت کے اندر جماعت سازی چہ معنی دار؟ اس کے معنی سوائے خروج کے اور کیا ہیں؟؟
ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ سیاسی جماعتیں قوم و ملت کو اس طرح تقسیم نہیں کرتیں جس طرح دینی جماعتیں ملک و ملت کو تقسیم دَر تقسیم کر دیتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنی پالیسیاں طے کرتی ہیں اور ان کی بنیاد پر عوام سے ووٹ کی طلبگار ہوتی ہیں، اس کے برعکس دینی جماعتیں دین کی حرمت کے ساتھ خود کو بھی لازم و ملزوم مشتہر کرتی ہیں اور اپنی جماعت سے غیر متفق افراد کو لادینی عناصر قرار دے دیتی ہیں۔ شومئی قسمت ‘ ہر دینی جماعت دین کے نفاذ کو اپنے نفاذ کے ساتھ مشروط بھی کردیتی ہیں۔ اگر ان جماعتوں کامقصد ِ وحید‘ نفاذ دین کے علاوہ اور کچھ نہ ہوتا تو یہ تعداد میں اتنی فراواں نہ ہوتیں، بلکہ ایک مقصد کے حصول کے لیے ایک دوسرے میں ضم ہو جاتیں۔ہر جماعت کے پس پشت ایک مفسر ہے، اور ہر مفسر اپنی دینی تعبیر پر اصرار کرتا ہے، وہ اپنے علاوہ کسی کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ بھی اس کی طرح اعلائے کلمتہ الحق کا فریضہ سر انجام دے ، اِس کے برعکس توقع یہ کی جاتی ہے کہ اب جس نے دین کے لیے کام کرنا ہے‘ اُسے ہماری سربراہی میں ہمارا تابع فرمان رہ کر کام کرنا ہوگا۔ کم و بیش تمام نیم سیاسی اور نیم دینی جماعتوں کا اِس پر اجماع ہے کہ ان سے غیر متفق مسلمان یا تو ادھورے اور نامکمل مسلمان ہیں یا پھر کفر ، فسق اور زندیقیت میں بھٹک رہے ہیں۔ناموس ِ دین اور تحفظ ِ دین کے داعی بھی اسی مائینڈ سیٹ کا شکار نظر آتے ہیں۔
’’اَمر بالمعروف ونہی عن المنکر‘‘ پر عمل درآمد کرنے اور کروانے کے لیے ہر جماعت خود کواستعداد اور استحقاق میں انتہائی اہل تصور کرتی ہے۔ سوچنے کی بات ہے‘ اگر کسی مریض کے طبی علاج معالجے کا لائسینس ہر کس و ناکس کو نہیں دیا جاتا اور نہیں دیا جاسکتا ‘ تو ’’اَمر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ کا عَلم اْٹھانا بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔دینی دعوت و ارشاد جیسا حساس شعبہ ہر کس و ناکس کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ اِس اہم مسئلے کو حدیث ِ پاک کی روشنی میں بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ قرآن کریم میں نماز کا ذکر ہے ، لیکن اِس حکم ِ خداوندی کی تفصیل ہمیں احکام ِ رسولِ کریمؐ میں میسرآتی ہے، قرآن میں زکوٰۃ کا ذکر ہے ، لیکن زکوٰۃ کا نصاب اور دیگر احکامات ہمیں احادیث سے ملتے ہیں، قرآن میں حج کا ذکر اِجمالی طور پر آیاہے ‘جبکہ اس کی تفسیر و تفصیل ہمیں احکام ِ رسولِ کریمؐ سے میسر آتی ہے… اسی طرح’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ کا شعبہ ہے، اِس کی عملی تفسیراحادیث کی روشنی میں ملے گی۔ قولِ رسولِ کریم ؐ ہے ’’تم میں سے ہر شخص ایک راعی ہے ، اور اُس سے اُس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا‘‘۔ یہاں ’’ امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ کا دائرہ کار متعین کر دیا گیا۔یعنی ’امر بالمعروف ونہی عن المنکر‘ کا عملی مظاہرہ اپنی اپنی رعیت کے دائرے میں ہوگا۔یہ کل عالمین صرف اور صرف رسولِ کریمؐ رحمت اللعالمین ؐکے دائرہ رحمت و رعیت میںہیں، کسی اُمتی کی رعیت میں یہ سب کچھ نہیں دیا گیا۔ گاڑی میں میوزک چلانے پرمیں اپنے بیٹے کی گوشمالی کر سکتا ہوں‘ لیکن اپنے ہمسائے کے بیٹے کی طرف انگلی بھی نہیں اٹھا سکتا، کہ وہ میری رعیت میں سے نہیں ، اگرمیں ایسا کرتا ہوںتو اپنے محلے میں فساد پھیلانے کا موجب ٹھہروں گا۔ اپنے دائرہ تاثیر کے باہر’’ نہی عن المنکر‘‘ کا مظاہرہ مجھے ’’فساد فی الارض‘‘ کا مرتکب ٹھہرائے گا۔ اگر اِس قرآنی ہدایت کو اِسی حدیث کی روشنی میں سمجھ لوں تو میں بہت سی سیاسی اور معاشرتی قباحتوں سے بچ سکوں گا۔ قرآن کریم کی بہترین اور معتبر ترین تفسیر حدیث ِ رسولِ کریم ؐہے۔ اس باب میں مرشدی واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں ’’الہامی کلام کی ذہنی تفسیر اَزخود معتبر ہے‘‘
دیکھا گیا ہے کہ الہامی کلام کی ذہنی تعبیر کرنے والے ایک عجب فکری پیچیدگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ عقلی طور پر اپنے دین کو سب اَدیانِ عالم پر غالب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سائینس کی مدد سے اسے’’برحق‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، غیرمسلم مشاہیر کے اقوال گنوا کر دین ِ حق کی افادیت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارا دین‘دین ِ فطرت ہے۔ فطرت اَزخود غالب ہے، اسے غالب ثابت نہیں کرنا پڑتا۔ فطرت کا مقابلہ اور موازنہ انسان کے خود ساختہ نظاموں کے ساتھ نہیں کیا جاتا… یہ فطرت پر عدم اعتماد کی دلیل ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم اپنے دین کا موازنہ دوسرے مذاہب سے کیوں کرتے ہیں؟ کیا اپنے دین کے بارے میں (معاذ اللہ) ہم کسی تشکیک کا شکار ہیں؟ اگر ہمارا دین سورج ہے… اور واقعی سورج ہے کہ یہ’’ سراج منیر ا‘‘کا عطا کردہ دین ہے…تو اندھیرے اِس سے خود ہی بھاگ جائیں گے۔ کیا اندھیروں کو بھگانے کے بعد سورج طلوع ہوتا ہے؟آفتاب آمد دلیلِ آفتاب!!اگر ابھی تک دنیا اس آفتاب سے فیض یاب نہیں ہوئی تو قصور مسلمانوں کا ہے ، اسلام کا نہیں…مسلمان خود کو درست کریں،اپنی اصلاح اور تزکیے کے طرف لوٹ آئیں ، ہمارے دین کی روشنی ہمارے وجود سے چھن چھن کر خود ہی باہر آئے گی… ماحول منور ہو جائے گا …ریاست اور سیاست خود بخود معطر ہو جائے گی۔
صرف اور صرف رسول ِ کریم خاتم النّبیینؐ ہی کی ذاتِ والا صفات ظاہر اور باطن میں کُل عالمین پر ایک قطعی حجت ہے…یہی ایک ذاتِ کامل ؐ ہے جو حجت ِ کامل ہے۔ کسی اُمتی کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ تمام اُمت کے لیے عالم ِ ظاہر میں بھی حجت قرار پائے۔ اِس لیے اب کوئی اُمتی خواہ کتنا ہی مقرب ومتقی کیوں نہ ہو ‘ باقی اُمتیوں کے لیے ایسی حجت قرار نہیں پائے گا کہ اُس کی رائے سے اتفاق نہ کرنے والے کو کافر قرار دے دیا جائے۔ اب معاملات ِریاست بنانے اور چلانے کے لیے سب اُمتی ’’وامرھم شوریٰ بینھم‘‘ کے پابند ہیں۔ معاملاتِ ریاست ہوں ، معاملات ِ معیشت ہوں یا پھرمعاشرت‘سب مشاورت سے طے پائیں گے، کسی گروہ کو یہ حق حاصل نہ ہوگا کہ وہ بزعم ِ خویش خود کو مصلح قرار دے کر باقی اُمتیوں کو گمراہ سمجھ لے اوراُن کی سرکوبی کے مشن پر نکل پڑے، اور نہ اُس کے لیے یہ ہی جائز ہے کہ وہ اپنی رائے دھونس اور طاقت سے دوسرے مسلمانوں پر مسلط کرے۔ اِسلام کی سیاسی تعبیر میں یہی غلطی باربار دہرائی جاتی رہی۔ چاہیے کہ اب ایک اِصلاح یافتہ اْمتی دوسرے اُمتیوں کی اِصلاح محبت سے کرے، خدمت سے کرے اور اُس کے باطن میں جگہ پانے کے بعد کرے۔ فرد کی طرف توجہ کی جائے ، ہجومِ کرگساں خود ہی چھٹ جائے گا۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا