اسلام آباد: سابق وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو کہا تھا کہ مجھے ہی رہنے دیں ، پی ڈی ایم کی حکومت آئی تو ملک کا نقصان ہوگا ۔ مجھے کہا جاتا تھا کہ کرپشن کو چھوڑیں ملکی معیشت کو بہتر کریں۔ نواز شریف کی واپسی کی حمایت کرتے کہا کہ ان کی واپسی سے ہمیں فائدہ ہوگا۔ لانگ مارچ اکتوبر میں ہی ہوگا۔
نجی ٹی وی کو انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ میں نے اسٹیبلشمنٹ کو یہ سمجھایا بھی تھا کہ اگر آپ نے یہ تبدیلی آنے دی تو یہ لوگ سنبھال نہیں پائیں گے اور ہماری معیشت نیچے آجائے گی، شوکت ترین کو بھی بھجوایا کہ ان کو سمجھاؤ۔ میں نے کہا تھا کہ یہ لوگ ملک کو ڈیفالٹ کی طرف لے جارہے ہیں اور خدانخواستہ ملک ڈیفالٹ کرجائے تو اس کے بعد ہمیں اس سے جو بھی نکالے گا وہ ہم سے بھاری قیمت مانگے گا اور یہ لوگ جو اسلامک بم کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، مجھے خطرہ یہ ہے کہ یہ لوگ ہم سے جو قیمت مانگیں گے ہماری نیشنل سیکیورٹی بالکل ختم ہوجائے گی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان امریکا کی جتنی بھی خدمت کرلے لیکن کوئی یہ نہ سمجھے کو وہ ہمیں ایک دم اونچا مقام دے دیں گے، حالانکہ ہمارے وزیر خارجہ ان کے پیر بھی پڑے اور شہباز شریف نے وہاں مانگا بھی کہ ہم مر گئے لٹ گئے، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا، وہ لوگ اپنی مرضی کے مطابق پالیسی بناتے ہیں جب کہ میرا بھی یہی کہنا ہے کہ ہمیں بھی اپنی مرضی کی پالیسی بنانی چاہیے اور اگر اپنے مفاد کے لیے ان کے سامنے کھڑا ہونا پڑے تو بالکل ہونا چاہیے کیوں کہ ہمیں لوگ پاکستان کے مفادات کے تحفظ کے لیے منتخب کرتے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے حکمران سمجھتے ہیں کہ اگر ہم امریکا کے سامنے جھک جائیں، ان کی جنگ میں شامل ہوجائیں، اپنے لوگ قربان کردیں تو شاید وہ ہمارے ساتھ اچھے ہوجائیں لیکن ایسا نہیں ہے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ ایک عرصے سے پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے خلاف ایک مہم چل رہی ہے اور مجھے یاد ہے انگلینڈ میں جب میں کرکٹ کھیلتا تھا تب اسے اسلامک بم قرار دیا جاتا تھا لیکن کسی نے آج تک یہ نہیں کہا کہ اسرائیل کا جو بم ہے وہ جیوئش بم ہے یا بھارت کا ہندو بم ہے، اور اس مہم کا اصل مقصد یہ تھا کہ مسلمان بہت غیر ذمہ دار لوگ ہیں لہذا ان کے ہاتھ اگر بم آگیا تو پوری دنیا کو خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے پہلے بھی یہ بات کی تھی کہ امپورٹڈ حکومت نااہل ہے اور یہ پہلے بھی خزانہ خالی چھوڑ کرگئے تھے اور 2018 میں جس حالت میں یہ ملک ہمیں دے گئے تھے اور اپریل 2022 کو جب یہ آئے ہیں، تو صرف موازنہ کرلیں کہ ہم کیا چھوڑ گئے تھے جب تیل عالمی مارکیٹ میں آدھی قیمت پر تھا اور ہمیں اصل مشکل یہی درپیش تھی کہ تیل کی قیمت دگنی ہوگئی تھی اور اس کے باوجود ہم پاکستان کو کہاں چھوڑ کر گئے تھے اور یہ کہاں چھوڑ کرگئے تھے، اب جیسے ہی یہ واپس آئے، ہماری مارکیٹ اور پیسہ نیچے جانا شروع ہوگئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کہتے ہیں کہ ایسے سائفر تو آتے رہتے ہیں، ان لوگوں کو شرم نہیں آتی، اصل میں ان میں غیرت نہیں ہے، چونکہ ان لوگوں کو شرم نہیں آتی اور یہ سارے ملک کو ذلیل کرواتے ہیں، کسی بنانا ری پبلک میں ایسا نہیں ہوتا اور مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ان لوگوں نے اس کی تحقیقات ہی نہیں کروائی۔
معیشت سے متعلق پوچھے گئے سوال پر عمران خان نے کہا کہ مجھے کوئی حیرت نہیں ہے کیوں کہ اسحاق ڈار 1997 سے 1999 تک وزیر خزانہ رہا تو ملک کا کیا حال ہوا اور جب جب یہ آیا ہے ان کی دولت میں تو اضافہ ہوا ہے لیکن ملک مقروض ہوجاتا ہے اور مزید نیچے چلاجاتا ہے اور یہی کام انہوں نے 2018 میں کیا، یہ 20 ارب ڈالر کا خسارہ چھوڑ کرگئے۔
انہوں نے کہا کہ 30 سال سے یہ لوگ اس ملک پر حکومت کررہے ہیں اور لوٹ رہے ہیں، بھارت ہم سے آگے نکل گیا، 1990 تک پاکستان بھارت سے معاشی طور پر آگے تھا لیکن 1990 کے بعد سے جب سے یہ دو چور آئے ہیں ، بھارت اور بنگلادیش بھی ہم سے آگے نکل گیا۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ اکتوبر میں لانگ مارچ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ لانگ مارچ ہوگا اور اکتوبر میں ہی ہوگا، مجھے پتہ ہے یہ لوگ کیا کریں گے اس لیے میں نے پوری تیاری کررکھی ہے، اب ہم وہ پلاننگ کررہے ہیں کہ یہ ہمیں نہیں روک سکتے، اگر یہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان کردیتے ہیں تو لانگ مارچ رک جائے گا۔