صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایک ٹی وی چینل پر انٹرویو میں عمران خان کی حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے امریکی سازش کے بیانیے کو یہ کہہ کر رد کیا ہے کہ میں امریکی سازش بیانیے پر قائل نہیں۔ تاہم میرے اس بارے میں شبہات ہیں اور اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ صدر مملکت کا کہنا تھا کہ اقتدار سے محرومی اور حکومت سے ہٹائے جانے پر عمران خان سخت مایوس ہوگئے تھے اور اس مایوسی (فریسٹریشن) میں انھوں نے فیصلہ کیا کہ اسمبلی میں نہیں بیٹھیں گے۔ یہ ان کا ذاتی فیصلہ تھا، اگر مجھ سے پوچھتے تو کوئی اور مشورہ دیتا۔ فوج نیوٹرل ہے اس سے نیوٹرل ہی رہنا چاہیے۔ پاکستان کے آئین میں سیاست میں فوج کا کوئی کردار نہیں۔ میں پی ٹی آئی چیئرمین کا وکیل نہیں ہوں، عمران خان کو خود وضاحت کرنی چاہیے کہ وہ فوج کو کیوں غیر جانبدار نہیں دیکھنا چاہتے۔ آرمی چیف کی تقرری کے بارے میں صدر مملکت نے ارشاد فرمایا یہ آئینی طریقہ کے مطابق ہوگی۔ نئے آرمی چیف کے نام پر وسیع تر مشاورت ہو تو اچھا ہے۔ ماضی میں بھی آرمی چیف کی تقرری پر مشاورت ہوئی ہے۔ آرمی چیف کے ریمارکس کہ کسی ملک، قوت یا گروہ کو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی کے بارے میں صدرمملکت کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل باجوہ کا یہ بیان مکمل طور پر آئینی ہے۔ صدر مملکت کا انٹرویو میں مزید کہنا تھا کہ دو معاملات ٹیبل (فوری نوعیت کے) ہیں۔ ایک معیشت اور دوسرے انتخابات۔ میری کوشش ہے سب لوگوں کو بٹھا کر ڈائیلاگ کراؤں اور کم از کم معیشت پر ہی مفاہمت ہو جائے۔ میں اس بات کو اہمیت دیتا ہوں کہ بات کرو اور منافرت اس حد تک نہ لے جاؤ کہ قوم بھگتے۔ اس وقت مسائل اتنے ہیں کہ کسی ایک سے حل نہیں ہونگے۔ مزید پولرائزیشن سے حل نہیں نکلے گا۔ صدر مملکت کا مزید کہنا تھا کہ بطور صدر وہ غیر جانبدار ہیں۔ تحریک انصاف سے تعلق ان کا ماضی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ کی میری کوشش رہی ہے، بطور صدر کوشش کر سکتا ہوں کہ دوریاں نہ ہوں۔
صدر مملکت عارف علوی کے انٹرویو کے یہ مندرجات بلاشبہ بڑی تفصیل کے ساتھ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا میں آچکے ہیں۔ ان کو یہاں دوہرانے کا مقصد اس بات کا جائز ہ لینا ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی جن کا تعلق تحریک انصاف سے شروع سے چلا آرہا ہے اور جنہیں تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان کے دیرینہ فدائیوں اور شیدائیوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے انٹرویو میں اپنے بیان کیے گئے خیالات کا اظہار کن مقاصد کو سامنے رکھ کر یا کن مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کیا ہے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ صدر مملکت جناب عارف علوی جو اپریل میں اپنی پارٹی کے قائد جناب عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے نتیجے میں میاں شہباز شریف کی سربراہی میں قائم حکومت کے بارے میں ایک طرح کے مخاصمانہ اور مخالفانہ رویے کو اپنائے چلے آ رہے ہیں اور اس ضمن میں اپنے آئینی فرائض کی ادائیگی میں بھی دانستہ یا نا دانستہ تاخیری حربوں کو اختیار کرنے میں بھی گریز نہیں کرتے رہے ہیں، اب لگتا ہے کہ بطور صدر مملکت انہیں ایک غیر جانبدار اور ثالث کا کردار ادا کرنے کا شوق چرایا ہے۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ انہیں بطور صدر مملکت ایک غیر جانبدار اورثالث کا کردار ادا کرنے والے مدبّر اور بزرگ قومی راہنما کے طور پر جانا اور یاد رکھا جائے۔ جناب صدر مملکت کی اس خواہش یا کوشش پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے لیکن دیکھنا ہوگا کہ صدر مملکت جو کچھ کہہ رہے ہیں یا اپنے بارے میں جس تاثر کو سامنے لانا چاہتے ہیں کیا وہ اپنے اعمال و افعال اور انداز فکر و نظر سے بھی اس پر پورا اترتے ہیں یا نہیں۔
صدر مملکت کے انٹرویو کے مندرجات کو سامنے رکھا جائے تو یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ ایک طرف وہ اپنی پارٹی کے قائد جناب عمران خان کے برعکس ملک و قوم کو درپیش مسائل و مشکلات کا حل نکالنے کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کے مل بیٹھنے اور ان میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں تو اس کے ساتھ ہی وہ جناب عمران خان کے اپنے مخالفین کے بارے میں اختیار کردہ انتہا پسندانہ بیانیے اور ریاستی اداروں اور ان سے وابستہ شخصیات بالخصوص فوجی قیادت کو نشانہ بنانے کے انداز فکر و عمل کو کھل کر رد بھی نہیں کر رہے۔ آگے بڑھنے سے قبل اس بات کا حوالہ دیا جا سکتا ہے کہ ٹی وی اینکر محترمہ عاصمہ شیرازی کے ساتھ صدر مملکت کے انٹرویو کے مندرجات اور اس کے بارے میں خبریں الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا میں سامنے آئیں تو ان کے انٹرویو کے ان واضح الفاظ کہ "میں امریکی سازش بیانیے پر قائل نہیں تاہم میرے اس بارے میں شبہات ہیں اور اس معاملے میں تحقیق ہونی چاہیے " سے یہ تاثر سامنے آیا، جیسے انہیں اپنے پارٹی قائد جناب عمران خان کے اپنی حکومت ختم ہونے کے حوالے سے اختیار کردہ غیر ملکی سازش کے بیانیے سے اتفاق نہیں ہے۔ چنانچہ اس صحیح یا غلط تاثر کو دور کرنے کے لیے انھوں (صدر مملکت) نے اگلے ہی روز ایک تردید یا وضاحت جاری کرنی ضروری سمجھی جس میں کہا گیا کہ سائفر پر ان کے بیان یا الفاظ کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔ میں نے انٹرویو میں کہا تھا کہ خط چیف جسٹس کو بھیجا، میں قائل ہوں کہ اس کے اوپر تحقیقات ہونی چاہیے۔ میں اس بارے پر قائل نہیں کہ سازش ہوئی، مگر میرے شبہات ہیں کہ تحقیقات ہوں۔
صدر مملکت کی اس تردید یا وضاحت کا کیا مطلب نکلتا ہے، کیا اس سے وہی مطلب سامنے نہیں آتا جو اس سے قبل اس حوالے سے میڈیا میں آنے والی خبروں سے سامنے آچکا تھا کہ میں امریکی سازش کے بیانیے کو تسلیم نہیں کرتا تاہم اس بارے میں میرے کچھ شبہات ہیں اور ان کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ یعنی بیک وقت دو متضاد باتیں کہہ رہے ہیں ایک طرف وہ (صدر مملکت) کہتے ہیں کہ میں سازش کا قائل نہیں ہوں اور ساتھ ہی کہتے ہیں کہ
میرے شبہات ہیں اور تحقیقات ہونی چاہیے۔بات بڑی واضح ہے کہ اگر صدر مملکت ایک بات کے قائل نہیں ہیں تو پھر تحقیقات کس بات کی وہ چاہتے ہیں؟ خیر صدر مملکت کی اس تردید اور اس سے قبل اس حوالے سے آنے والی خبر یا خبروں کو ایک طرف رکھتے ہیں اہم ترین بات یہ ہے کہ انہیں یہ تردید یا وضاحت کیوں جاری کرنا پڑی؟ کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ انٹرویو کے بارے میں خبریں اور تفصیلات سامنے آئیں تو صدر مملکت کو احساس ہوا یا ان کو احساس دلایا گیا کہ اس سے ان کے اپنی پارٹی قائد کے خیالات یا پارٹی قائد کے اختیار کردہ انتہا پسندانہ بیانیے سے اختلافات کا تاثر ابھرتا ہے۔ اس پر انھوں نے اس تاثر کو زائل کرنے اور پارٹی قائدین کو راضی کرنے کے لیے غیر ملکی سازش اور سائفر کے حوالے سے اپنے انٹرویو کے مندرجات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھا۔ خیر یہ معاملہ بھی شاید اتنا اہم اور ضروری نہیں ہے جتنا صدر مملکت نے آرمی چیف کے تقرر کے حوالے سے اپنے انٹرویو میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ اہم ہیں۔ صدر مملکت کا ارشاد ہے کہ آرمی چیف کی تقرری آئینی طریقہ کار کے مطابق ہوگی۔ ساتھ ہی ان کا ارشاد ہے آرمی چیف کے نام پر وسیع تر مشاورت ہو تو اچھا ہے۔ ماضی میں بھی آرمی چیف کی تقرری پر مشاورت ہوئی ہے۔ صدر مملکت سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ آپ ملک کے آئینی سربراہ ہیں اور ملک کے آئین کا تحفظ اور اس کی پاسداری آپ کی منصبی ذمہ داری ہے۔ آئین و قانون میں آرمی چیف کی تقرر کے طریقہ کار میں کہاں مشاورت کا ذکر ہے اور کب اس بارے میں مشاورت ہوئی ہے؟ آئین و قانون میں آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے ایک واضح اور غیر مبہم طریقہ کار دیا گیا ہے جس کے تحت جی ایچ کیو (سبکدوش ہونے والے آرمی چیف) کی طرف سے چار یا پانچ سینئر اور میرٹ پر پورا اترنے والے تھری سٹار جرنیلوں کے ناموں کی ایک سمری وزارت دفاع کے توسط سے وزیر اعظم آفس کو بھیجی جاتی ہے اور وزیر اعظم اپنی صوابدید کے مطابق ان میں سے کسی ایک کو آرمی چیف اور کسی دوسرے کو چیئرمین جوائنٹ سٹاف کمیٹی نامزد کرکے ان کے بطور فور سٹارز جنرل پروموشن کے آڈر جاری کر دیتے ہیں۔ اس طریقہ کارمیں کسی دوسری شخصیت خواہ وہ کتنی بڑی ہو، سیاسی ہو یا غیر سیاسی ہو اور اس کا کتنا ہی مقام اورحیثیت کیوں نہ ہو اس سے مشاورت کا کوئی ذکر نہیں۔ ماضی میں 1998، 2013اور 2016 میں میاں محمد نواز شریف نے اپنے دوسرے اور تیسرے وزارت عظمیٰ کے ادوار میں اسی طریقہ کار کے تحت علی الترتیب جنرل پرویز مشرف، جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقرریاں کیں۔ جبکہ نومبر 2010میں پیپلز پارٹی کی دور حکومت میں وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کواور نومبر 2019میں وزیر اعظم عمران خان نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع دینے میں ہی عافیت سمجھی۔
اب 28نومبر کو جنرل باجوہ کی بطور آرمی چیف توسیع شدہ معیاد مکمل ہو رہی ہے اور نئے آرمی چیف کا تقرر کیا جانا ہے تو عمران خان اس تقرری کے حوالے سے کبھی کیا کبھی کیا موقف اختیار کیے شور مچا رہے ہیں تو جناب صدر مملکت کو بھی اس تقرری کے حوالے سے وسیع تر مشاورت کا بیانیہ یاد آگیا ہے جو سر ا سر آئین اور قانون کے تحت مروج طریقہ کار کے منافی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بہت سارے تجزیہ اور تبصرہ نگاروں اور اینکرز پرسنز نے جن میں سید طلعت حسین اور جناب نصرت جاوید جیسے سینئر اور موقر صحافی،کالم نگار اور مستند اینکر پرسن شامل ہیں انھوں نے بھی صدر مملکت کے اس وسیع تر مشاورت کے بیانیے پر کھلی تنقید کی ہے۔ سید طلعت حسین نے اسے صدر مملکت کی طرف سے کی جانے والی ایک بڑی واردات کا نام دیا ہے تو جناب نصرت جاوید کے خیال صدر مملکت کی طرف سے ثالث بننے کے شوق میں مشاورت کی شاطرانہ تجویز ہے۔اس سیاق و سباق میں آج کے اس کالم کا عنوان "صدر مملکت،انٹرویو۔۔۔ گھاتیں کیا کیا!" جو دیا گیا ہے میرے خیال میں ہر لحاظ سے مناسب اور موزوں ہی نہیں ہے بلکہ معروضی حالات کی عکاسی بھی کرتا ہے۔