ثابت ہوگیا قوم ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم سے والہانہ محبت کرتی ہے۔ ان کی زندگی میں بھی اور دنیا چھوڑ جانے کے بعد بھی۔ اس کا خود حکمران اشرافیہ کو بھی اندازہ نہیں تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے انتقال کی خبر آتے ہی پورے ملک میں رنج و غم کی شدید لہر دوڑ گئی۔ ڈاکٹر صاحب سے مسلسل ہونے والے ناروا سلوک نے دلوں میں غصہ بھر رکھا تھا۔ اسی لئے جب چند گھنٹوں کے اندر ہی شدید رودعمل آیا تو حکومت نے ٹسوے بہاتے ہوئے جنازے اور تدفین کے بارے میں متضاد اعلانات کرنا شروع کردئیے۔ کہا گیا کہ اس عظیم شخصیت کو فیصل مسجد کے احاطے میں سپرد خاک کیا جائے گا۔ ساتھ ہی اسلام آباد کے مقامی قبرستان میں تدفین کی بات بھی کی گئی۔ پھر کہا گیا کہ دونوں مقامات پر قبریں تیار کی جارہی ہیں۔آخر میں حکومت کی جانب سے بتایا گیا کہ اہل خانہ مقامی قبرستان میں تدفین کے خواہشمند ہیں کیونکہ خود ڈاکٹر صاحب کی وصیت بھی یہی تھی۔ سکیورٹی انتظامات سے یوں لگا کہ ڈاکٹر صاحب جس طرح اپنی زندگی میں آزاد نہیں تھے۔ اسی طرح مر کر ان کا جسم بھی کسی آہنی حصار میں ہے۔ ورثا تک پہنچے کا کوئی اور ذریعہ تھا نہ ہی کسی کو اسکا وقت ملا۔ سو حکومت نے جنازے اور تدفین کے حوالے سے جو کچھ کہا وہ سب نے مان لیا۔ وزیر داخلہ شیخ رشید نے اسی روز یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ سول اور عسکری قیادت جنازے میں شرکت کرے گی۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اسلام آباد میں موجود ہوتے ہوئے جنازے میں شرکت نہیں کی۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے انتقال سے چند روز قبل ایک انٹرویو میں گلہ کیا تھا کہ ان کی بیماری کے دوران کسی حکومتی شخصیت نے رابطہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کیونکہ ان سب کو امریکاکا خوف ہے۔جنوری سال 2004 کی وہ سرد شام آج بھی یاد ہے جب امریکا کے صدر بش نے پاکستان پر جوہری پھیلاؤ کا الزام لگاتے ہوئے بار بار ڈاکٹر خان نیٹ ورک کا ذکر کیا تو ملک میں ہر طرف سراسیمگی پھیل گئی۔ پھر آنکھوں نے ایک عجیب منظر دیکھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر ڈکٹیٹر جنرل مشرف کے سامنے بے بسی کی حالت میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ بتایا گیا دیگر ممالک کو جوہری ٹیکنالوجی کی منتقلی کے الزام میں ڈاکٹر خان کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ چار فروری کو پاکستان ٹیلی ویژن پر انہوں نے ایک بیان پڑھا جس میں انہوں نے ان کارروائیوں کی تمام ذمہ داری قبول کر لی تھی جبکہ فوج اور حکومت کو بری الزمہ قرار دے دیا۔ اس“ جرم“ میں جنرل مشرف نے بظاہر انہیں معافی دے دی مگر وہ عملًا آخر سانس تک زیر حراست رہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عوام کی بڑی تعداد کی طرح زیادہ تر جوہری ماہرین بھی ڈاکٹر عبد القدیر خان کے خلاف اس الزام کو بودا اور بے بنیاد قرار دیتے رہے۔ تجزیہ کاروں کا یہی کہنا ہے کہ امریکا کو اس مبینہ نیٹ ورک کے ایک ایک کردار کا علم تھا۔لیکن اس وقت صرف دباؤ ڈال کر کوئی ٹارگٹ حاصل کرنا مقصود تھا اسی لئے ڈاکٹر خان نیٹ ورک کا شوشا چھوڑا گیا۔ بعد میں یہ تجزیہ درست ثابت ہوگیا، چودھری شجاعت اور ایس ایم ظفر نے مختلف مواقع پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب نے کچھ اور لوگوں کو بچانے کے لئے ان کے کہنے پر اعتراف کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو یقین دلایا گیا تھا کہ قومی مفاد کا تقاضہ ہے کہ وہ اس موقع پر سارا کیس اپنے سر لے لیں۔ جلد ہی کیس ختم کرکے انکی حیثیت اور آزادی بحال کردی جائے گی مگر یہ وعدہ محض ایک دھوکہ ثابت ہوا۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام روز اوّل سے ہی عالمی طاقتوں کے نشانے پر تھا۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید نے ڈاکٹر عبدالقدیر کو ہالینڈ سے بلا کر اس کی بنیاد تو رکھ دی مگر اس کی قیمت جان دے کر چکانا پڑی۔ ممکن تھا کہ یہاں کی خطرناک اور پیچیدہ سیاست دیکھ کر ڈاکٹر عبدالقدیر خان پھر باہر چلے جاتے مگر اسی دوران افغانستان میں روسی جارحیت نے پاکستان کو امریکا کی ضرورت بنا دیا۔ عالمی طاقتوں نے آنکھیں بند کرلیں اور ایٹمی پروگرام جاری رہا۔ کہا جاتا ہے کہ ایٹم بم 1984 میں تیار کرلیا گیا تھا مگر اس کا اظہار ممکن نہیں تھا۔مئی 1998 میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کرکے اسکا
جواز بھی فراہم کردیا۔ اگرچہ امریکا کا بے حد دباؤ تھا۔ صدر کلنٹن نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو پانچ مرتبہ براہ راست فون کرکے ایسا کرنے سے روکا۔ ترغیبات بھی دیں مگر دھماکے ہو کر رہے۔ اس سارے عرصے میں مرکزی کردار ادا کرنے کے باعث ڈاکٹر عبد القدیر خان کو بجا طور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا باپ قرار دیا گیا۔ کچھ حلقوں نے پاکستان کے ایٹم بم کو اسلامی بم کا نام بھی دیا۔ 1998 میں ہونے والے ان دھماکوں سے پہلے اور بعد میں ایسی غیر مصدقہ خبریں اڑتی رہیں کہ ٹیکنالوجی اور آلات بعض دوسرے ملکوں کو فروخت کئے جارہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکا پھر پاکستان کی ضرورت پڑی تو معاملات معمول کے مطابق چلتے رہے۔ امریکی حکام نے افغانستان میں طویل جنگ کے لئے انتظامات مکمل کرلئے تو اسکے بعد موقع دیکھتے ہی اپنے دوست جنرل مشرف کے دور میں ایٹمی آلات کی سمگلنگ کا الزام لگا کر پاکستان کے لئے سخت مشکلات کھڑی کرنے کی کوشش کی۔امریکا کو اس معاملے میں مطلوبہ مقاصد حاصل ہوگئے مگر ڈاکٹر عبد القدیر اپنوں ہی کے ہاتھوں قربانی کا بکرا بن گئے۔ قائد اعظم کے بعد ملک کی دوسری بڑی محترم شخصیت کا اپنے ہی ملک میں جینا دو بھر کر دیا گیا۔ ان کے گھر کو جیل کا درجہ مل گیا۔ دن رات سکیورٹی اہلکاروں کے نرغے میں رہنے لگے۔ آزادانہ نقل و حرکت کا تصور ہی ختم ہوگیا۔ نامعلوم مقامات سے ملنے والے احکامات کے تحت وقفے وقفے سے ان پر سختیاں مزید بڑھا دی جاتی تھیں۔اس زیادتی کے خلاف کئی بار عدالتوں سے رجوع کیا گیا مگر کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہ ہوسکا۔ اپنی نظر بندی کے خلاف انکی درخواست آج بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ پاکستانی عدلیہ کی آزادی اور انصاف فراہم کرنے کی صلاحیت کا جائزہ لینے کے لئے یہ کیس ایک کلاسیکل مثال ہے۔ڈاکٹر صاحب کو بدنام کرنے کے لئے ملک کے اندر کئی بار مہم چلائی گئی۔ کبھی یہ کہا گیا کہ بیرون ملک ان کی بہت زیادہ جائیداد ہے۔ مخصوص شہرت رکھنے والے ایک اینکر نے ٹمبکٹو میں ہوٹل بھی“ دریافت“ کرلئے مگر حقیقت میں آج تک کچھ نہیں ملا۔ موجودہ کابینہ میں شامل وزرا بھی اسی کھیل کا حصہ بنے۔ ایک وزیر ڈاکٹر عبدالقدیر کی قابلیت کو نشانہ بنانے اور ان کا موازنہ معمولی درجے کے لوگوں کے ساتھ کرنے کی ڈیوٹی پر تھا۔ مشرف دور میں ایک وزیر نے جو اب بھی وزیر ہے ڈاکٹر صاحب کو ایک تقریب میں یہ کہہ کر اگلی نشتوں سے اٹھا دیا تھا کہ یہ وزرا کے لئے مختص ہیں۔ مشرف حکومت رخصت ہوگئی مگر ڈاکٹر عبد القدیر کی جان نہیں چھوٹی۔ پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں ڈاکٹر صاحب کو سہولتیں فراہم کرنے کی ہر ممکن کوششیں کیں۔ کچھ فائدہ بھی ہوا مگر یہ راز کسی سے چھپا ہوا نہیں کہ سول حکومت کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تو اسکو بھی اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈاکٹر نے خود بتایا کہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف ان سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ ہفتے میں ایک بار فون ضرور کرتے ہیں اور ان کا احوال دریافت کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی تبدیلی حکومت آئی تو ڈاکٹر عبدالقدیر کے ساتھ ایک بار پھر سے مشرف دور والا ناروا سلوک شروع ہوگیا۔ تلخ حقیقت تو ہے کہ مشرف ٹولے کے زیر عتاب آنے کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو زندہ درگور کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔ان کے گھر کے باہر ہی نہیں اندرونی حصے پر بھی نگران مسلط تھے۔ درویش صفت ڈاکٹر عبدالقدیر کو تمام عمر کبھی مال و زر کی رغبت نہیں رہی تھی۔ ان کا رہن سہن سادہ تھا۔ جبری نظر بندی کے دوران مالی حالات بھی متاثر ہوئے۔ ایک بڑے میڈیا گروپ کے مالک نے ڈاکٹر صاحب کو اپنے اخبار میں کالم لکھنے کی دعوت دے کر ان کے لئے معقول آمدن کا بندوبست کیا۔ اپنے ملک کے لئے دنیا کا سب سے خطرناک ہتھیار بنانے والے ڈاکٹر عبدالقدیر ذاتی زندگی میں بہت نرم مزاج تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ ملک میں اعلیٰ تعلیم کو عام کرنے کے لئے متحرک کردار ادا کریں۔ دین و دانش کے پیغامات کو عام کریں۔غریب لوگوں کو صحت عامہ کی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کڑے حصار میں رہ کر بھی اس حوالے جو کچھ ممکن تھا کرنے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر صرف پاکستان یا عالم اسلام میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں اساطیری شہرت رکھنے والے سائنسدان تھے۔ ہالینڈ میں جب ڈاکٹر صاحب کے حوالے سے بعض الزامات لگے تو ہالینڈ،برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسرز نے جب ان کا جائزہ لیا تو انہوں نے ڈاکٹر خان کو بری کرنے کی سفارش کی۔ بغیر کسی شک و شبے کے کہا جاسکتا ہے کہ قائد اعظم کے بعد پاکستان کے دوسرے بڑے محسن ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں۔ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں امریکا سمیت عالمی طاقتوں، ہماری حکمران اشرافیہ، اعلیٰ عدالتوں اور بائیس کروڑ عوام کو اچھی طرح سے علم تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر بے گناہ ہیں پھر بھی انہیں قربانی کا بکرا بنا دیا۔ہم زندہ قوم ہوں تو آج سے ہی یہ عہد کرنا چاہئے کہ جب تک غلامی کی طوق اپنی گردنوں سے اتار نہیں لیتے ہر سال ڈاکٹر کے یوم وفات کو یوم اجتماعی ندامت کے طور پر بھی منایا جائے گا۔ کتنی شرمناک بات ہے کہ بھارت نے اپنے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبد الکلام کو صدر جمہوریہ بنا کر خراج تحسین پیش کیا۔ ان کے انتقال پر صدر، وزیر اعظم، وزرا، مسلح افواج کے سربراہوں اور تمام اہم عہدیداروں نے جنازے میں شرکت کی اور میت کو سلامی دی اور انہیں ملک کا فخر قرار دیا۔ ادھر ہم ہیں آزاد ہوکر بھی آزاد نہیں! اس صورت حال کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں۔حکیم الامت علامہ اقبال ؒ بہت پہلے خبردار کرچکے ہیں
مجھ کو معلوم ہیں پِیرانِ حرم کے انداز
ہو نہ اخلاص تو دعوٰئے نظر لاف و گزاف
اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مْروّت کے خلاف
اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے
قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف
فِطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملّت کے گْناہوں کو معاف