جس طرح بلجیم یورپ کا دروازہ ہے اسی طرح سی پیک کے شروع ہونے کے بعد پاکستان وسطی ایشیائی ریاستوں کے گیٹ وے کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اس لئے اگر باہمی تعاون و اشتراک سے ایک دوسرے کی منڈیوں سے فائدہ اٹھایا جائے تو اس سے نہ صرف سارے ممالک کی معیشت بہتر ہو گی بلکہ وہ عالمی اقتصادی نظام میں بھی اپنا کردار زیادہ مئوثر طریقے سے ادا کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔ جہاں تک ملکی مصنوعات کو امریکی و یورپی منڈیوں تک پہنچانے اور ان کے دائرے کو وسعت دینے کا تعلق ہے تو اس کی اہمیت و افادیت سے کسی بھی باشعور انسان کو کوئی انکار نہیں کیونکہ کسی ملک کا بین الاقوامی تجارت میں جتنا زیادہ حصہ ہو گا اتنے ہی مثبت اور بہتر اثرات اس کی معیشت پر مرتب ہوں گے۔ لیکن ہمیں گزشتہ کئی سالوں سے اس میں خاطر خواہ کامیابی نہیں حاصل ہو رہی ہے کیونکہ ایک طرف تو ہر ملک فطری طور پر مقامی مصنوعات کو زیادہ ترویج دینے کا خواہاں ہوتا ہے تا کہ اس کی اپنی صنعتیں پھل پھول سکیں اور اسی خواہش کا یہ تقاضا بھی ہوتا ہے کہ غیر ملکی مصنوعات کو صرف انتہائی ناگزیر حالات میں اور محدود تعداد میں ہی درآمد کیا جائے تا کہ اس پر کم سے کم زرِ مبادلہ خرچ ہو۔ غیر ملکی درآمدات کو ایک حد کے اندر رکھنے کے لئے ہی امریکہ و یورپی ممالک ان کا کوٹہ مقرر کرنے یا ان پر قدغن عائد کرنے کے اقدامات کرتے رہتے ہیں تا کہ مقامی صنعتوں کو فروغ اور تجارتی سرگرمیوں کی نشو نما میں کوئی رکاوٹ نہ پڑے۔ بعض اوقات یہ اقدامات تجارتی اجارہ داریوں کو برقرار رکھنے کے لئے بھی کئے جاتے ہیں لیکن اگر کسی ملک کی مصنوعات معیار اور کوالٹی کے اعتبار سے دوسرے ممالک کی مصنوعات سے زیادہ بہتر اور ارزاں ہوں تو وہ اپنی مارکیٹ خود بنا لیتی ہیں اور دوسرے ممالک کو نہ چاہتے ہوئے بھی ان کو اپنی منڈیوں میں جگہ دینا پڑتی ہے۔
پاکستان میں خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے ٹیکسٹائل، قالین بافی، سرجری کے آلات، کھیلوں کے سامان نیز چمڑے کی صنعتیں نہایت مضبوط بنیادوں پر استوار ہیں اور ان مصنوعات کی بڑے پیمانے پر برآمد سے ماضی میں ملک کو اربوں ڈالر کا زرِ مبادلہ حاصل ہوتا رہا ہے لیکن جب سے ملک میں مہنگی بجلی، گیس کی قلت اور لوڈ شیڈنگ نے ڈیرہ ڈالا ہے معیشت تنزلی کا شکار ہے۔ گیس اور بجلی ایک طور تو کم ہے تو دوسری طرف ان کے نرخ میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ کاسٹ آف پرودکشن میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے دوسرے ممالک کی مصنوعات سے عالمی منڈی میں مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا ہے۔مصنوعات کا پائیدار، ارزاں اور دیدہ زیب ہونا بھی مارکیٹ بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس میدان میں بھی ہمارے لئے دوسرے ممالک کی ہمسری کرنا خاصا مشکل ہوتا جا رہا ہے کیونکہ اکثر پاکستانی برآمد کنندگان نے ایک مرتبہ تو نہایت اعلیٰ معیار کا سامان برآمد کیا مگر دوسری بار انہوں نے دانستاً اس کی کوالٹی غیر معیاری کر دی جس سے نہ صرف ان کی برآمدات پر منفی اثرات مرتب ہوئے بلکہ ملک کی ساکھ بھی متاثر ہوئی۔ اس صورتحال کے ہمارے بینک بھی ذمہ دار ہیں وہ اپنے ادارے کے کاروبار کو بڑھانے کے لئے ایکسپورٹرز کو حد سے زیادہ اکاموڈیٹ کر جاتے تھے۔ چونکہ میں خود بینک میں ملازمت کرتا رہا ہوں اس لئے یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ شپنگ کمپنیوں نے مقابلے کی بناء پر بل آف لیڈنگ کے پیڈ کے پیڈ برآمد کنندگان کو دئے ہوئے ہوتے تھے۔ مال ابھی برآمد ہوا نہیں ہوتا تھا کہ وہ لیٹر آف کریڈٹ پر قرض حاصل کر لیتے جسے بینک کی زبان میں ڈاکومنٹس نیگوشئیٹ کرنا کہا جاتا ہے۔ اس طرح لیٹ شپنمٹ کو کور کرنے کے لئے بینک کے عملہ کی ملی بھگت سے تاریخیں بدل کر خود ہی مہریں لگاتے رہتے تھے۔ جس سے مال امپورٹرز کو لیٹ ملتا، سیزن ختم ہو جانے پر انہیں نقصان ہو تا اس طرح آہستہ آہستہ امپورٹرز کا اعتماد پاکستانی برآمد کنندگان سے اٹھتا گیا اور انہوں نے مال منگوانے کے لئے دوسرے ملکوں سے رجوع کرنا شروع کر دیا جب کہ بیرونی تجارت میں معیار، وقت اور مقابلہ جاتی قیمت ہی کامیابی کی شرط ِ اول ہے۔ لیکن جب مال کی کوالٹی لیٹر آف کریڈٹ کے مطابق نہیں ہوگی، مال کی بروقت شپمنٹ نہیں کی جائے گی تو ظاہر ہے بیرونی دنیا کے درآمدکنندگان ایسے ملکوں کے برآمدکنندگان سے کام کیوں کریں گے؟ اس ساری صورتحال کے باوجود ملکی معیشت کو ترقی دینے کے لئے نجی شعبے کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نجی شعبے کو سہولتیں فراہم کر کے معاشی ترقی میں اس کے کردار کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ شعبہ نجی ہو یا سرکاری اس کی ترقی کا دارومدار حکومتی پالیسیوں پر ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں وسائل اور مہارت کی کمی نہیں ضرورت صرف ان کو مناسب طریقے سے استعمال میں لانے کی ہے۔ ہمارا زرعی اور صنعتی شعبہ بھی زیادہ تر نجی ملکیت میں ہے جب کہ یہ دونوں شعبے مل کر ملک کی مجموعی معیشت میں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں چنانچہ یہ بالکل واضح ہے کہ اگر دونوں شعبوں کو سہولتیں فراہم کی جائیں تو نہ صرف ہم غذائی لحاظ سے خود کفیل ہو سکتے ہیں بلکہ مغربی ممالک سے ان کی منڈیوں تک رسائی کا جو تقاضا ہم اکثر دہراتے ہیں ایسی سہولت ملنے پر ان منڈیوں کی طلب پوری کرنے کے قابل بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ بات تسلیم کی جانی چاہئے کہ ہمارے زرعی شعبے کو جتنی
توجہ کی ضرورت ہے اب تک نہیں دی گئی اس شعبے پر مناسب توجہ دی جائے گی تب ہی آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نکل سکے گا۔ اسی طرح دیگر شعبے بھی نظر انداز کئے جاتے رہے جس کے اثرات ہم سب کے سامنے ہیں کہ ہمیں آزادی کی 7دہائیاں گزرنے کے باوجوداپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے عالمی اقتصادی اداروں سے قرضے حاصل کرنا پڑ رہے ہیں۔ ہمیں صرف سڑکیں اور پل ہی نہیں چاہئیں بلکہ ایک مربوط اقتصادی حکمتِ عملی بناء کر وسائل کو استعمال کرنا چاہئے۔ ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے دیکھنا ہو گا کہ کتنے وسائل ہمارے پاس ہیں اور ان کو کس تناسب سے کہاں کہاں خرچ کرنا ہے اور معاشیات کی تھیوری قانونِ تقلیلِ افادہ مختتم اسی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کم سے کم وسائل سے زیادہ سے زیادہ افادہ کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ سنگین معاشی صورتحال ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ پالیسیوں کو قومی اور عوامی امنگوں سے ہم آہنگ کرنے میں دیر نہ کی جائے اور قوم کو دلدل سے نکالا جائے کیونکہ کرپٹ معاشرے میں آزادی کی بقاء بھی ممکن نہیں ہوتی۔