آرمی چیف جاوید باجوہ نے ایرانی چیف آف جنرل اسٹاف سے ملاقات میں کہا کہ پاکستان اور ایران دونوں برادر ملک ہیں اور علاقائی امن و استحکام کیلئے ان کا قریبی تعاون ضروری ہے۔ دہشت گردی مشترکہ دشمن ہے، اس پر قابو پانے کیلئے پاک ایران تعاون ناگزیر ہے۔حکومتوں کے ساتھ ساتھ پاکستان اور ایران کے عوام بھی قریبی تجارتی تعلقات سے مستفید ہورہے ہیں۔
ایرانی چیف آف جنرل اسٹاف نے فوجی رابطوں کو فروغ دینے کے خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا انسداد دہشت گردی اور تربیتی امور میں تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے باہمی دلچسپی، علاقائی سلامتی، افغان صورتحال سمیت پاک ایران سرحد مینجمنٹ اور باڑ لگانے پر تبادلہ خیال کیا۔
وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ افغانستان کے استحکام میں پاکستان اور ایران کا براہ راست مفاد ہے۔ پاکستان پائیدار معیشت اور رابطوں کو فروغ دینے کی پالیسیوں پر مبنی پرامن اور مستحکم افغانستان دیکھنا چاہتا ہے۔ا عالمی برادری کو افغانستان میں مطلوبہ امداد کی فوری فراہمی اور اقتصادی بحران روکنے کیلئے مثبت انداز میں متحرک رہناچاہیے۔عمران خان نے گزشتہ ماہ قائم کردہ افغانستان کے چھ ہمسایہ ممالک کے پلیٹ فارم سے پاکستان اور ایران کے درمیان قریبی رابطہ جاری رکھنے پر بھی زوردیا۔
پاک ایران دوطرفہ تجارتی تعلقات میں اضافہ کے لئے پاکستان نے اپنے عزم کو اجاگر کرنے کیلئے گزشتہ ایک سال کے دوران پاک ایران سرحد پر دو مزید سرحدی کراسنگ پوائنٹس کھولے ہیں جس سے سرحد کے دونوں جانب آمدورفت کی سہولت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔دونوں ممالک کے معاشی اور توانائی کے شعبوں میں تعاون کا فروغ بھی ضروری ہے۔
مسئلہ کشمیر پر ایرانی چیف آف جنرل اسٹاف نے کشمیریوں کی حمایت کرتے ہوئے بھارت پر
زور دیا کہ وہ نہ صرف کشمیریوں پر ظلم و ستم بند کرے بلکہ مسئلہ کے حل کیلئے پاکستان اور کشمیریوں سے مذاکرات شروع کرے۔ پاکستان نے بھی جموں وکشمیر کے تنازع پرایران کی غیرمتزلزل حمایت خصوصی طور پر ایرانی رہبر اعلیٰ کی حمایت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری اپنے جائز حق خودارادیت کے لیے ایران کی بھرپور حمایت کی توقع رکھتے ہیں۔
پاک ایران بارڈر مینجمنٹ کو مزید مستحکم بنانے کی کوشش ہونی چاہیے تاکہ نئی مارکیٹس کھلنے کے بعد ان عناصر کی سرگرمیوں پر قدغن لگ جائے جو اسمگلنگ، تخریب کاری اور دہشتگردی کے لیے کسی کی سر زمین استعمال نہ کرسکیں۔ بلاشبہ مختلف دہشتگرد گروپس مدت سے فعال ہیں، اور ضرورت اس بات کی ہے کہ بارڈر پر چیک پوسٹوں کو فعال کیا جائے جس سے کاروباری سرگرمیوں سے علاقہ کے عوام کو روزگار کے مواقع ملیں گے، مقامی پروڈکٹس کی تجارت اور عارضی بازاروں سے غریب طبقات کی معاشی ضرورتیں بھی پوری ہونگی اور بہتر اقتصادی ہم آہنگی و تعاون سے انتہا پسندی میں بھی کمی لائی جاسکتی ہے۔
ایران سے مختلف اشیاء مثلاًڈیزل اور اسمگلنگ کے سامان کی نقل وحمل کی حوصلہ شکنی بھی ہونی چاہیے۔ وہ کاروباری لوگ جو سالہا سال سے پاک ایران بارڈر سے تجارت کے ایک قابل عمل میکنزم سے منسلک ہیں انھیں شفافیت کے ساتھ اپنے کاروبار کے جاری رکھنے اور تجارتی حجم بڑھانے کا موقع ملنا چاہیے، لیکن ان عناصر پر کڑی نظر رکھنا ناگزیر ہے جن کا مطمع نظر دہشتگردی اور جو مجرمانہ وارداتوں سے دو طرفہ تعلقات میں رخنہ ڈالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اخباری اطلاع ہے کہ بارڈر ایریا میں گزشتہ دنوں باڑ کے ایک بڑے حصے کو کاٹ دیاگیا، یہ کس کی کارستانی ہوسکتی ہے، سرحدی حکام کو اس کا جلد نوٹس لے کر اس میں ملوث عناصر کو جلد گرفت میں لینا چاہیے۔
دونوں ممالک کے درمیان بہتر تجارتی تعلقات دونوں ممالک کے وسیع تر مفاد میں ہیں بلکہ یہ برادر اسلامی ممالک کے معاشی خوشحالی کی ضامن ہیں۔ دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان مقررہ تجارتی اہداف کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ دوطرفہ تجارت میں درپیش مشکلات کاخا تمہ کیا جا ئے۔بارٹر ٹریڈ اور ٹرانسپورٹ میں باہمی تعاون کو مزید بہتر بنانے کے لئے کمیٹیاں تشکیل د ی جائیں۔
پاکستان اور ایران اس خطے کی اہم قوتیں ہیں۔ دونوں ملک بہت سے شعبوں میں ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں خصوصاً ایران کے پاس توانائی وافر مقدار میں ہے جب کہ پاکستان کو توانائی کی قلت کا سامنا ہے۔پاکستان ایران سے گیس اور تیل لے کر توانائی کی قلت پر قابو پا سکتا ہے۔ اسٹرٹیجک ایشوز پر بھی دونوں ملکوں کے درمیان ہم آہنگی بہت ضروری ہے۔ ایران کے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور موجودہ افغان حکومت کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں۔ افغانستان میں قیام امن اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے خاتمے کے لیے بھی ایران اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ایران گیس اور تیل کے شعبوں میں پاکستان کے ساتھ تعاون کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایران ڈیموں اور شاہراہوں کی تعمیر میں بھی پاکستان کی مدد کر سکتا ہے۔ دونوں ملکوں کی ترقی ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔ پاکستان اور ایران مقامی کرنسی میں بھی تجارت کر سکتے ہیں۔ دفاع اور دفاعی سیکیورٹی کے شعبوں میں بھی تعاون ہونا چاہیے۔
ایران اور پاکستان دونوں برادر اسلامی ملک ہونے کے ناطے ایک دوسرے سے گہرے تعلقات رکھتے ہیں۔ہماری شناخت ہمارا مسلک نہیں اسلام ہے اور ہمیں اسلام کی حقیقی روح دنیا کو دکھانا ہو گی۔ پاکستان اور ایران کی سرحد کو دہشت گردوں اور غیر ملکی ایجنٹوں کی منفی سرگرمیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے دونوں ممالک کو مشترکہ پالیسی اپنانا ہوگی۔جہاں تک دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں باہمی تعاون کا تعلق ہے تو اس سے اس خطے کے عوام کو فائدہ پہنچے گا اور ترقی کی رفتار تیز ہو گی۔ اقتصادی راہداری سے جہاں تجارت کو فروغ ملے گا وہاں خطے کے ممالک کو بھی ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملے گا۔