اسلام آباد:پاکستان نے موجودہ حالات میں بھارت سے مذاکرات مسترد کرے ہوئے کہا ہے کہ بھارت مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرے۔مقبوضہ کشمیر میں حالات تبدیل ہونے تک بامعنی مذاکرات ناممکن ہیں۔
اسلام آباد میں ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاون کو آج 437 دن ہو چکے ہیں، اس دوران متعدد نوجوانوں کو شہید اور زخمی کیا جاچکا ہے، بھارتی مظالم کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو نہیں دبا سکتے، پاکستان مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے، ن کا کہنا تھا کہ بھارت نے خود ساختہ گھیرا واور تلاشی آپریشنز میں 6 مزید کشمیریوں کو شہید کردیا ہے۔ کشمیریوں کے قتل عام، گرفتاریوں اور مظالم سے بھارت اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکتا، عالمی برادری کشمیر میں مظالم اور جنگی جرائم پر بھارت کو احتساب کے کٹہرے میں لائے۔
دفتر خارجہ کا کہنا تھا 14 اکتوبر کو سیز فائرمعاہدے کی بھارت کی خلاف ورزی سے دو شہری زخمی ہوئے۔انہوں نے کہا کہ کمانڈر کلبھوشن یادیو پر بھارتی مطالبات اور بیانات بے بنیاد ہیں۔ ہم نے بھارت کو تیسری قونصلر رسائی فراہمی کی پیشکش بھی کی۔ کلبھوشن کیس میں بھارت کو موثر نظر ثانی اور انصاف پاکستانی عدالت سے ہی ملنا ہے۔ بھارت کے لیے ضروری ہے کہ وہ پاکستانی عدالتوں سے تعاون کرے۔
بھارتی گواہوں کو پاکستانی عدالتوں میں پیشی کیلئے سیکیورٹی انتظامات کی پیشکش بھی کی ہے ۔ بھارتی گواہوں کو پاکستانی عدالت میں پیش ہونا چاہیے۔ترجمان کا کہنا تھا کہ بھارت نے 18 لاکھ جعلی ڈومیسائل جاری کیے جو کہ کشمیر پر عالمی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے، بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو فوری روکا جائے سارے عمل کو واپس پلٹایا جائے، مقبوضہ کشمیر میں حالات پلٹنے اور سازگار ماحول کے قیام تک بھارت سے بامعنی مذاکرات ناممکن ہیں۔
زاہد حفیظ نے بتایا کہ مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے بھارتی صحافی کو دیئے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں جن شرائط کا ذکر کیا ہے بھارت سنجیدہ ہے تو ان پر غور کرے، معید یوسف نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کا غیر انسانی محاصرہ بند کیا جائے، سیاسی قیدی رہا کیے جائیں اور پاکستان میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کا سلسلہ ختم کیا جائے، ہم مسلسل کہہ رہے ہیں کہ بھارت مذاکرات کے لیے سازگار ماحول تیار کرے اور کشمیریوں کا اس سارے عمل سے باہم منسلک رہنا بہت ضروری ہے، مذاکرات اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتے جب تک مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند نہیں ہوتی اور کشمیریوں کو بھی ان میں شرکت کا موقع فراہم نہیں کیا جاتا۔