اسلام آباد: آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل (ر) ظہیر الاسلام نے کہا سابق وزیراعظم کے الزام کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے نہ ہی کبھی نواز شریف کو کوئی پیغام بھیجا تھا اور نہ ہی ان سے کبھی استعفیٰ طلب کیا تھا۔
یہ بات انہوں نے ایک نجی ٹیلی ویژن سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ پاک فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ظہیر الاسلام نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ یہ باتیں بالکل غلط ہیں جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ میں نے تحریک انصاف کے دھرنے کے موقع پر ہر مرتبہ نواز شریف کی حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ اس معاملے کیساتھ سیاسی انداز سے نمٹا جائے۔
یاد رہے کہ نواز شریف نے الزام عائد کیا تھا کہ سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل (ر) ظہیر الاسلام نے 2014ء میں انہیں پیغام بھیجا تھا کہ وہ استعفیٰ دے دیں اور اگر آپ ایسا نہیں کیا گیا تو اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے اور بات مارشل لا کی جانب بھی جا سکتی ہے۔ سابق وزیراعظم نے دعویٰ کیا کہ میں نے انھیں جواب دیا کہ جو مرضی کر لیں لیکن میں استعفیٰ نہیں دوں گا۔
دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں انصاف لائرز فورم کی تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ مجھے پاکستانی فوج سے کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ بیرون ملک میری کوئی جائیداد نہیں ہے، آئی ایس آئی کو پتا ہے کہ میں کس طرح کی زندگی گزار رہا ہوں۔ انہوں نے اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سارے بیروز گار سیاستدان اکٹھے ہو گئے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ سڑکوں پر نکل کر مجھے بلیک میل کر لیں گے۔ نواز شریف خود لندن میں بیٹھ کر کارکنوں کو باہر نکلنے کا کہہ رہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ قانون کی بالادستی نہیں مانتے۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ انھیں کوئی ہاتھ نہ لگائے کیونکہ یہ خود کو قانون سے ماورا سمجھتے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں ہم چوری کریں یا ڈاکے ڈالیں، ہمیں کوئی ہاتھ نہ لگائے۔ عدالت ان کیخلاف فیصلے کرتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ ‘’مجھے کیوں نکالا’’۔ انہوں نے اپوزیشن کی جانب سے احتجاج کے اعلان کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ لوگ کسی کی چوری بچانے کے لئے نہیں نکلتے بلکہ کسی مقصد کیلئے نکلتے ہیں۔ یہ سارے مل کر دو سال بھی جلسے کریں، ہمارا ایک جلسہ ان سے زیادہ ہے۔ اپوزیشن جتنے مرضی جلسے کرے لیکن میں انھیں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اگر قانون توڑا تو سیدھا جیل جائیں گے۔
انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود تو لندن بیٹھے ہوئے ہیں اور لوگوں کو حکومت کیخلاف باہر نکلنے کا کہہ رہے ہیں۔ میں ان کے کارکنوں کو کہتا ہوں کہ ان سے پیسہ بھی لیں، قیمے کے نان بھی کھائیں لیکن گھر بیٹھے رہیں۔ نواز شریف کی بیماری پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ جب ڈاکٹرز نے اتنی بیماریاں بتائی تو شیریں مزاری کی انکھوں میں بھی آنسو آ گئے تھے۔ اگر شیریں مزاری کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تو سمجھ لیں کیسی بیماریاں بتائی ہونگی۔
وزیراعظم نے کہا کہ مجھے پاکستانی فوج سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ فوج کی قربانیوں کی وجہ سے آج ہم دہشت گردی سے محفوظ ہیں۔ پاکستانی فوج ہر ایجنڈے پر ہمارے ساتھ کھڑی ہے۔ حکومت کو کورونا سمیت جس مسئلے پر مدد کی ضرورت پڑی پاک فوج نے ساتھ دیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر میں آج پیسہ بنانا شروع کر دوں تو سب سے پہلے آئی ایس آئی کو پتا چلے گا کیونکہ پاکستانی خفیہ ادارہ دنیا کی ٹاپ کی ایجنسی ہے۔ اسے پتا ہے کہ میں کس طرح کی زندگی گزار رہا ہوں۔ دوسری جانب آئی ایس آئی کو ان سیاستدانوں کی چوری کا پتا ہے، یہ لوگ خفیہ ادارے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تب لڑائی ہوتی ہے۔ نواز شریف آئی ایس آئی کو پنجاب پولیس بنانا چاہتا ہے۔
وزیراعظم نے ایک بار پھر دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے اپوزیشن کو کسی بھی قسم کا ریلیف نہ دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جس دن انھیں این آر او ملا، پاکستان کی تباہی ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا مسئلہ جمہوریت نہیں کیونکہ جمہوریت تو میں ہوں، میں پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر آیا ہوں۔ ہمیں پتا تھا ہم نے دھاندلی نہیں کی، اس لئے ہم پہلے دن سے تیار تھے کہ الیکشن کھول دو۔ اگر دھاندلی ہوتی تو ہمیں اتحادیوں کی ضرورت نہ پڑتی۔