اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق صدر آصف علی زرداری 8 ارب روپے کی مشکوک ٹرانزیکشن پر سابق صدر آصف علی زرداری کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیئے ہیں۔ یہ اقدام چیئرمین نیب کی ہدایت پر اٹھایا گیا ہے۔ تفتیشی ٹیم نے چیئرمین نیب سے وارنٹس گرفتاری کی درخواست کر رکھی تھی۔
ذرائع کے مطابق چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے سابق صدر آصف علی زرداری کے وارنٹ گرفتاری پر دستخط کر دیے ہیں۔ خیال رہے کہ آج اسلام آباد ہائیکورٹ میں مشکوک ٹرانزیکشن کیس میں آصف علی زرداری کی دراخواست ضمانت پر سماعت ہو گی۔ اس وارنٹ کو آج اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کیا جائے گا۔
گزشتہ دنوں آصف علی زرداری کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی تھی جس کی وجہ سے انھیں نجی ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ ہسپتال میں سابق صدر کو فوری طبی امداد دی گئی جبکہ چیک اپ اور ٹیسٹ بھی کیے گئے۔ یاد رہے کہ سابق صدر میگا منی لانڈرنگ اور پارک لین ریفرنسز میں ضمانت پر ہیں جس کے بعد سے ہی ان کا علاج جاری ہے۔
یاد رہے کہ منی لانڈرنگ کیس 2015ء میں پہلی دفعہ اُس وقت سامنے آیا تھا جب سٹیٹ بینک کی جانب سے وفاقی تحقیقاتی ادارے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ بھیجی گئیں۔ ایف آئی اے نے ایک اکاؤنٹ سے جو اے ون انٹرنیشل کے نام سے موجود تھا، مشکوک منتقلی کا مقدمہ درج کیا جس کے بعد کئی جعلی اکاؤنٹس سامنے آئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مقدمے کی ایف آئی آر میں آصف زرداری کا نام شامل نہیں ہے۔
تاہم سپریم کورٹ کے حکم پر بننے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے سابق صدر آصف علی زرداری اور اومنی گروپ کو مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے فوائد حاصل کرنے کا ذمہ دار قرار دیا اور ان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش بھی کر دی۔ جے آئی ٹی کے بعد ایک بار پھر سپریم کورٹ کے حکم پر نیب نے اس مقدمے کی دو ماہ تک تفتیش کی جس میں آصف زرداری اپنے بیٹے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو سمیت تفیشی افسران کے سامنے پیش ہوئے۔
آصف زرداری نے تفتیشی ٹیم کے سامنے موقف اختیار کیا کہ 2008ء سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں شامل نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کر لیا تھا۔ اس کے برعکس اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیب کی طرف سے جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق جعلی بینک اکاؤنٹس سے متعلق انکوائریز سپریم کورٹ کے حکم پر شروع کی گئیں اور پانچ انکوائریز اور تین انویسٹی گیشنز میں مبینہ طور پر آصف زرداری کا کردار سامنے آیا ہے۔
ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ یہ ساڑھے 4 ارب روپے کی ٹرانزیکشن کا معاملہ ہے، اس حوالے سے تمام فہرست مہیا کر دی گئی ہے کہ کتنی رقم اکاؤنٹ میں آئی اور کتنی استعمال ہوئی۔ اے ون انٹرنیشنل اور عمیر ایسوسی ایٹس سے اربوں روپے کی ٹرانزیکشن ہوئی، ان اکاؤنٹس کے ساتھ زرداری گروپ اور پارتھینون کمپنیوں کی ٹرانزیکشن ہوئی۔ نیب رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آصف زرداری کے اب تک صرف ایک کیس میں وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے ہیں۔
نیب کے مطابق ایف آئی اے نے حسین لوائی اور ان کے ساتھی طلحہ رضا کو گذشتہ برس گرفتار کیا۔ ان پر 29 جعلی بینک اکاؤنٹس کھولنے میں معاونت کرنے کا الزام ہے، جن کے ذریعے مبینہ طور پر آصف زرداری سمیت 13 کمپنیوں کو اربوں روپوں کی مشکوک منتقلی کی گئی۔ ایف آئی اے کے مطابق دس ماہ کی قلیل مدت میں مبینہ طور پر ساڑھے چار ارب روپے اس اکاؤنٹ میں جمع ہوئے اور دیگر اکاؤنٹس میں ان کی منتقلی کی گئی۔ ان میں بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض کے داماد زین ملک کا نام بھی سامنے آیا جنھوں نے مبینہ طور پر 75 کروڑ کی رقم مشکوک اکاؤنٹس میں منتقل کی۔ نیب کی رپورٹ میں مزید رقم جمع کرانے والوں کے نام بھی شامل ہیں جو کراچی کی بینکنگ کورٹ سے اب اسلام آباد کی احتساب عدالت کے سامنے پیش ہو رہے ہیں۔
ایف آئی اے نے اپنی تحقیقات میں 4 ارب 14 کروڑ کی مزید مشکوک منتقلی کی نشاندہی کی ہے، جس سے مبینہ طور پر مستفید ہونے والوں میں متحدہ عرب امارات کے نصیر عبداللہ لوطہ گروپ کے سربراہ، آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کا گروپ اور آصف زرداری کے قریبی دوست انور مجید شامل ہیں۔ ایف آئی اے کی جانب سے دائر کی گئی ایف آئی آر کے مطابق زرداری گروپ کو جس کے مالک آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور اور دیگر ہیں، ایک کروڑ کی منتقلی ہوئی۔
سندھ میں 2017ء میں گنے کے کاشتکاروں اور شوگر مل مالکان میں کشیدگی کے وقت بھی انور مجید کا نام سامنے آیا تھا۔ سندھ میں شوگر ملز کی اکثریت کے مالک انور مجید ہیں جبکہ آصف علی زرداری کا گروپ بھی بعض ملز کا مالک ہے۔ کاشتکاروں کا الزام تھا کہ حکومت مل مالکان کو فائدہ پہنچا رہی ہے اور پیپلز پارٹی کی حکومت نے جب صنعتوں کو مالی مراعات فراہم کیں تو 50 فیصد صنعتیں جعلی بینک اکاؤنٹس مقدمے کے اہم ملزم انور مجید کی تھیں۔ نیب کا دعویٰ ہے کہ ادارے نے آصف زرداری اور بلاول کے خلاف انکوائری الزامات کی بنیاد پر شروع کی جن میں کہا گیا کہ پنجاب فورسٹ لینڈ کی زمین کو سی ڈی اے نے غیر قانونی طور پر پارک لین اسٹیٹ کو ٹرانسفر کیا۔ پارک لین اسٹیٹ پرائیوٹ لمیٹڈ کراچی کی ایک ریئل سٹیٹ کمپنی ہے جو آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے نام پر ہے۔
اس کیس میں سابق صدر اور بلاول بھٹو نیب کے سامنے تفتیش کے لیے پیش ہوچکے ہیں۔ اس کمپنی کے بارے میں آصف زرداری کے وکیل کہتے ہیں کہ یہ کمپنی انھوں نے 31جولائی 1989 میں خریدی تھی۔ آصف زرداری کی طرف سے موجود وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ بلاول کا اس کیس سے براہِ راست کوئی تعلق اس لیے نہیں بنتا کیونکہ جب یہ کمپنی وجود میں آئی تو اس وقت بلاول کی عمر ایک سال تھی۔ آصف زرداری کے وکیل نے بتایا کہ وہ کمپنی کے عہدے سے 2008 میں دستبردار ہوگئے تھے اور بلاول کا اس کمپنی کے روزمرہ معاملات سے نہ کوئی تعلق تھا اور نہ ہی اب ہے۔