کراچی: پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تقریباً 20 سال بعد سمندری راہداری دوبارہ بحال ہو گئی ہے، جس سے دونوں ملکوں کے تجارتی تعلقات میں نئے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ پاکستان سے پہلی بار ایک مال بردار بحری جہاز بنگلہ دیش پہنچا، جو اس نئی تجارتی راہداری کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
یاد رہے کہ 1971 کی جنگ اور قیام پاکستان کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا، لیکن شیخ حسینہ کی حکومت کے گرنے کے بعد عبوری حکومت کے کنٹرول میں نئے تجارتی راستوں کی امیدیں پیدا ہوئی ہیں۔ حالیہ پیش رفت اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران بنگلہ دیش کے عبوری وزیراعظم ڈاکٹر محمد یونس اور وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی ملاقات کے نتیجے میں سامنے آئی۔ دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات اور تجارتی روابط کو مزید مستحکم کرنے کی اہمیت پر زور دیا تھا۔
ڈھاکہ میں موجود "سومیا فیشن ورلڈ" کی چیف ایگزیکٹو سمیا سمو نے بتایا کہ بنگلہ دیش میں پاکستانی خواتین کے کپڑے، جیولری اور کاسمیٹک کی اشیاء کی بڑی مانگ ہے، اور اس نئی سمندری راہداری نے ان اشیاء کی ترسیل کو آسان بنا دیا ہے۔ سمیا سمو کے مطابق، ماضی میں تجارتی سامان کی ترسیل میں 20 سے 25 دن لگتے تھے، کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان براہ راست کارگو سروس نہیں تھی۔ تاہم، اب اس کارگو کے ذریعے مال کی ترسیل کا وقت کم ہو کر 10 دن رہ گیا ہے، جس سے سفری لاگت میں بھی کمی آئی ہے۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تجارت براہ راست نہیں تھی، اور دونوں ممالک کی بیشتر تجارت سری لنکا یا دبئی کے ذریعے کی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ، دونوں ممالک کے درمیان فضائی رابطے 2018 سے معطل تھے۔ تاہم، بنگلہ دیش کی حکومت نے پاکستانی مصنوعات پر سے "ریڈ لسٹ" کے لیبل کو ختم کرنے کے بعد دونوں ممالک کے تاجروں کے لیے نئے مواقع پیدا ہو گئے ہیں۔
اس نئی سمندری راہداری کے ذریعے دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات میں مزید بہتری کی توقع کی جا رہی ہے، جو نہ صرف دونوں ملکوں کے لیے بلکہ خطے کے لیے بھی اہم تجارتی فوائد کا باعث بنے گا۔