اسلام آباد: فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کیس سماعت 22 جنوری تک ملتوی کر دی گئی۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے فیص آباد دھرنا کیس کی سماعت کی۔
سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا عملدرآمد کیس کی سماعت کےدوران عدالت نے شیخ رشید احمد کی نظر ثانی درخواست واپس لینے پر خارج کردی۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ نہیں ہو گا کہ اوپر سے حکم آیا ہے تو نظرثانی دائر کر دی۔سچ سب کو پتہ ہے بولتا کوئی نہیں کوئی ہمت نہیں کرتا ۔
شیخ رشید نے کہا کہ آج کل تو سچ بولنا اور ہمت کرنا کچھ زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کو کوئی باہر سے کنٹرول کر رہا ہے؟نظرثانی کی درخواست آجاتی ہے پھر کئی سال تک لگتی ہی نہیں۔
گزشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے بنائی گئی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی مسترد کرتے ہوئے انکوائری کمیشن تشکیل دینے کی ہدایت کی تھی۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے فیض آباد دھرنا کی تحقیقات کیلئے قائم کمیشن کا نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کر دیا۔اٹارنی جنرل نے انکوائری کمیشن کے ٹی او آرز بھی پڑھ کر سنائے خیال رہے کہ
فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت سے قبل فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے وفاقی حکومت نے ریٹائرڈ آئی جی اختر علی شاہ کی سربراہی میں3 رکنی انکوائری کمیشن تشکیل دیا۔ کمیشن میں سابق آئی جی طاہر عالم اور ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ خوشحال خان شامل ہیں۔
انکوائری کمیشن کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا۔ وفاقی حکومت کے گزٹ نوٹیفکیشن میں انکوائری کمیشن کے ٹی او آر بھی درج ہیں جس کے مطابق انکوائری کمیشن قیام کے 2 ماہ میں اپنی رپورٹ پیش کرے گا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جب ملک کیساتھ کھڑے ہونے کی باری آتی ہے تو سب بھاگ جاتے ہیں۔ جب دل چاہیے جلاو گھیراو، سڑکیں بند کرا دو ، دوبارہ موقع ملے تو کیاپھر ملک کی خدمت کریں گے؟ ہم خود کے ہی دشمن بن چکے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا یہ کمیشن اس معاملے سے ڈیل کرنے کے قابل ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ کمیشن آنکھوں میں دھول بھی بن سکتا ہے اور نیا ٹرینڈ بھی بنا سکتا ہے۔
ابصار عالم نے کمیشن پر تحفظات کا اظہار کر تے ہوئے کہا کہ کیا دو ریٹائرڈ افسران سابق ڈی جی آئی ایس آئی،چیف جسٹس یا وزیر اعظم کو بلا سکیں گے۔ جس پر چیف جسٹس نے بتایا کہ کمیشن جسےبلائے اور وہ نہ آئے تو کمیشن اسے گرفتار بھی کروا سکتاہے۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کمیشن سب کو بلا سکتا ہے ،کسی کو استثنٰی نہیں دیا گیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر وزارتِ دفاع اور آئی بی کی نظرِ ثانی کی درخواستیں واپس لینے پر نمٹا دی گئی تھیں۔ پی ٹی آئی، ایم کیو ایم، اعجاز الحق کی درخواستیں بھی واپس لینے پر نمٹا دی تھیں۔
فیض آباد دھرنا
نومبر 2017 میں، تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) سمیت سیاسی جماعتوں نے اسلام آباد کے الیکشنز ایکٹ 2017 میں ختم نبوت کے حلف میں تبدیلی کے خلاف احتجاج کیلئے فیض آباد انٹر چینج پر تقریباً تین ہفتوں تک دھرنا دیا۔
مظاہرین نے اس وقت کے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔مظاہرین کی بڑی تعداد کو منتشر کرنے کے لیے اسلام آباد پولیس نے فرنٹیئر کور کے اہلکاروں اور رینجرز کی مدد سے آپریشن شروع کیا اور آنسو گیس کے شیل اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا۔ جوابی کارروائی میں مظاہرین نے سیکورٹی فورسز پر پتھراؤ کیا۔ جھڑپ کے دوران متعدد افراد زخمی اور کم از کم چھ ہلاک ہو گئے۔
احتجاج کرنے والی جماعتوں اور حکومت کے درمیان معاہدہ طے پانے کے بعد احتجاج ختم ہوا۔ معاہدے میں سے ایک میں زاہد حامد کا استعفیٰ بھی شامل تھا، جسے انہوں نے بعد میں پیش کیا۔
اس حوالے سےسپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ عدالت فیض آباد دھرنے کے ماسٹر مائنڈ کا نام جاننا چاہتی ہے۔
فیض آباد دھرنا فیصلہ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے 2019 کے فیض آباد دھرنے کے فیصلے میں لکھا تھا کہ آئین نے مسلح افواج کے ارکان کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی میں شامل ہونے سے منع کیا ہے، جس میں کسی سیاسی جماعت، دھڑے یا فرد کی حمایت کرنا شامل ہے۔
43 صفحات پر مشتمل اس بیان میں کہا گیا کہ حکومت پاکستان کو وزارت دفاع کے ذریعے فوج، بحریہ اور فضائیہ کے متعلقہ سربراہان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے زیر کمان ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی شروع کریں جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی حکومت، محکمہ یا انٹیلی جنس ایجنسی سمیت آئین کے آرٹیکل 19 میں بیان کردہ پیرامیٹرز سے ہٹ کر آزادی اظہار رائے اور پریس کے بنیادی حق کو ختم نہیں کر سکتا۔
موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلے میں لکھا، "پاکستان آئین کے تحت چل رہا ہے … آئین اور قانون کی پاسداری ہر شہری کا جہاں بھی ہو اور پاکستان میں اس وقت ہر دوسرے فرد کا ناقابلِ تنسیخ فرض ہے۔"