اسلام آباد: پاکستان میں کچھ ایسے ریٹائرڈ سویلین اور فوجی افسران بھی ہیں جنہیں غیر ملکی کرنسی میں ان کی پنشن ادا کی جاتی ہے۔
سینئر صحافی عمر چیمہ کی رپورٹ کے مطابق وزارت خارجہ کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق، ایسے پنشنرز کی تعداد 164؍ بتائی گئی ہے جنہیں غیر ملکی کرنسی میں پنشن ادا کی جاتی ہے۔ یہ صورتحال ان اطلاعات کے برعکس ہیں جن میں ریٹائرڈ سرکاری ملازمین ملکی کرنسی میں ہی پنشن کی عدم ادائیگی کی شکایات کرتے رہتے ہیں۔
عمر چیمہ کا کہنا ہے کہ صورتحال یہ ہے کہ اگر نعیم صادق نامی شہری کو اس معاملے کی بھنک نہ پڑتی تو شاید یہ معاملہ دبا رہ جاتا۔ انہیں ایک جاننے والے کے توسط سے پتہ چلا کہ ایک ریٹائرڈ اسکوارڈن لیڈر ہیں جو بیرون ملک مقیم ہیں اور انہیں ڈالرز میں پنشن ملتی ہے۔ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کا استعمال کرتے ہوئے نعیم صادق نے پاک فضائیہ کو درخواست دی اور استفسار کیا کہ ادارے کے کتنے ریٹائرڈ ملازمین کو غیر ملکی کرنسی میں پنشن ادا کی جاتی ہے۔ اگرچہ درخواست میں انہوں نے ایسے ریٹائرڈ ملازمین کے نام نہیں پوچھے تھے لیکن اس کے باوجود انہیں معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ اس کے بعد انہوں نے وزارت خارجہ سے رجوع کیا اور یہی معلومات طلب کیں کہ کتنے سرکاری ملازمین کو غیر ملکی کرنسی میں پنشن ادا کی جاتی ہے۔ وزارت خارجہ نے بھی معلومات شیئر کرنے سے انکار کرد یا اور درخواست گزار کو اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان ریونیوز (اے جی پی آر) سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا۔ اے جی پی آر نے بھی معلومات فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ جس کے بعد نعیم صادق نے پاکستان انفارمیشن کمیشن میں درخواست دے کر معلومات کی فراہمی کی درخواست کی۔ تاہم، یہاں کے طرز عمل سے معلوم ہوا کہ ادارے کے بیشتر کمشنرز درخواست گزار شہریوں کی بجائے حکومتی عہدیداروں کیلئے نرم رویہ رکھتے ہیں۔ اس کے بعد نعیم صادق نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور وزارت خارجہ، وزارت دفاع، پاکستان انفارمیشن کمیشن اور اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان ریونیوز (اے جی پی آر) کو فریق بنایا جس پر عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کیے جس کے بعد وزارت خارجہ نے درخواست گزار کو معلومات فراہم کرنے پر آمادگی ظاہرکی۔
فراہم کردہ معلومات کے مطابق، مجموعی طور پر 164 ریٹائرڈ سول اور ملٹری افسران بیرون ملک مقیم ہیں جنہیں حکومت پاکستان غیر ملکی کرنسی میں پنشن ادا کرتی ہے اور قومی خزانے پر اس وجہ سے سالانہ 200ملین روپے کا بوجھ پڑتا ہے۔ اس معلومات کا استعمال کرتے ہوئے، نعیم نے وزارت خزانہ اور اے جی پی آر کو خط لکھا جس میں اس طرز عمل کو آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی قرار دیا۔ یہ آرٹیکل ملک کے شہریوں کی مساوات کے متعلق ہے۔ خط میں درخواست گزار نے لکھا ہے کہ ’’مذکورہ بالا دونوں محکمے نہ صرف آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی کر رہے ہیں بلکہ پاکستان کے مفادات کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ منتخب چند افراد کو غیر ملکی کرنسی میں پنشن کی ادائیگی پاکستان کو اس کے اہم اور کم دستیاب وسائل یعنی زرمبادلہ سے محروم کر رہی ہے۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جسے ایک ایک ڈالر کی بھیک مانگنے کیلئے اپنی عزت نفس بیچنا پڑی اور خودمختاری پر سمجھوتہ کرنا پڑا۔ جس وقت پاکستان اپنی مالی بقا کی جنگ لڑتا ہے تو آپ 164 افراد پر مشتمل اشرافیہ کے گروپ کو خصوصی ادائیگی کرتے ہیں۔