راقم کو اقبال شناسی کا دعویٰ نہیں ہے لیکن بطورِ ایک اُستاد اور معلم اپنے طویل عرصہ تدریس کے دوران اسے ثانوی اور اعلیٰ ثانوی جماعتوں کی سطح پر علامہ اقبالؒ کی نظمیں اور غزلیں پڑھانے کا موقع ملا رہا ہے۔ اس طرح اقبالؒ کے ایک قاری ، نیازمند اور معتقد کی حیثیت سے اقبالؒ کے فکر و فلسفے، شاعری اور شاعری میں جھلکنے والے عظمتِ اسلام اور عشق ِ رسول کے پیغام سے جو تھوڑی بہت شناسائی حاصل ہوئی ہے اس کا تقاضا ہے کہ ان باتوں کا تذکرہ ہونا چاہیے کہ یہ بھی اقبال ؒکے حضور ایک طرح کا خراجِ عقیدت پیش کرنے کی صورت ہی ہے۔ سچی بات ہے اقبالؒ کے بارے میں لکھتے ہوئے اپنی تنگی داماں کا احساس ہے ۔ سوچنا پڑتا ہے کہ بات کہاں سے شروع کی جائے اور کس پہلو پر کی جائے۔ اقبال ؒکی شاعری کو دیکھا جائے تو کہنا پڑتا ہے کہ یہ اپنے ظاہری حسن کے لحاظ سے ہی بے مثال نہیں بلکہ باطنی حسن اور معنی آفرینی کے لحاظ سے بھی بے مثال ہے۔ اس میں جو خوبصورت تراکیب استعمال ہوئی ہیں، الفاظ کی جو بندش ہے، معنی کی جو وسعت ہے، تاریخ و تہذیب کا جو شعور ہے، خودی کی جو ترجمانی ہے، خیالات کی جو بلندی ہے، فکر و فلسفے کی جو گہرائی ہے، عقل و دانش کی جو فراوانی ہے، عشقِ حقیقی اور عشقِ رسول کی جو خوشبو ہے، قومِ رسولِ ہاشمی اور تہذیبِ حجازی کا جو تذکرہ ہے، ماضی کی جومنظر کشی ہے، حال کی جو اُمید افزائی ہے اور مستقبل کے جو سُہانے خواب ہیں وہ سب کچھ اتنا عدیم النظیر اور شاندار ہے کہ اس کی کہیں اور مثال نہیں ملتی۔ پھر بات شاعری پر ختم نہیں ہوتی۔ اقبالؒ بلاشبہ بلند پایہ فلسفی تھے، حکیم الاُمت تھے، دانائے راز تھے اور اُمت ِ مسلمہ کے محسن تھے کہ اُن کی ان سب حیثیتوں کا ایک مضمون میں تذکرہ کرنا یا اُن کا جائزہ لینا اگر ناممکن نہیں تو کارِ دارد ضرور ہے۔
علامہ اقبالؒ کے بارے میں جاننے والے اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اقبالؒ نے اُردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شاعری کی ہے۔ اقبالؒ کا زیادہ کلام فارسی زبان میں ہے جو کئی مجموعوں پر مشتمل ہے۔ اُردو میں "بانگِ درا"اُن کا پہلا مجموعہ کلام ہے تو دوسرا مجموعہ کلام "بال جبریل"ہے۔ "ضرب کلیم"اُن کی اُردو شاعری کا تیسرا مجموعہ ہے جس میں زیادہ تر اُن کے آخری دور کا کلام شامل ہے۔ "ارمغان حجاز" اُن کی شاعری کا ایک اور مجموعہ ہے جس میں اُردو اور فارسی دونوں زبانوں کا کلام شامل ہے۔
زیرِ نظر مضمون جیسا کہ اس کے عنوان "خودی میں ڈوب کے ضرب کلیم پیدا کر" سے اشارہ ملتا ہے، اس میں اقبال ؒکے مجموعہ کلام "ضربِ کلیم" کی بعض نظموں کو زیرِ بحث لایا جا رہا ہے۔ "ضربِ کلیم"
میں "اسلام اور مسلمان"کے عنوان کے تحت اس حصے میں 66نظمیں اور 2غزلیں شامل ہیں۔ ان میں سوائے دو یا تین نظموں کے کوئی بھی ایسی نظم نہیں ہے جس میں اشعار کی تعداد اتنی ہو کہ وہ پورے صفحے یا اس سے کچھ زائد پر پھیلی ہو۔ ان نظموں میں اشعار کی تعداد اوسطاً تین سے پانچ تک ہے۔ اور بعض نظمیں ایسی بھی ہیں جن میں اشعار کی تعداد صرف دو ہے۔ کتاب کے عنوان "ضربِ کلیم"کی وضاحت سرورق کے اندرونی صفحے پر یہ لکھ کر کی گئی ہے۔ "ضربِ کلیم یعنی اعلانِ جنگ دورِ حاضر کے خلاف"اندرونی صفحے کی دوسری طرف یہ اشعار لکھ کر "ضربِ کلیم"کی مزید وضاحت کی گئی ہے۔
نہیں مقام کی خوگر طبیعت آزاد
ہوائے سحر مثال نسیم پیدا کر
ہزار چشمہ ترے سنگِ راہ سے پھوٹے
خودی میں ڈوب کے ضرب کلیم پیدا کر
ان اشعار کی تشریح کی ضرورت نہیں کہ ان میں جو پیغام دیا گیا ہے وہ بڑا واضح ہے تاہم مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ اقبالؒ کے نزیک مرد مومن اپنی پہچان ، مقام اور مرتبے کے ساتھ خودی ، خودشناسی اور قوتِ ایمانی کی صفات سے بہرور ہو کر میدانِ عمل میں آئے تو آج بھی وہ وہی کچھ کر سکتا ہے جو حضرت موسیٰ کلیم اللہ ؑ کے عصا کا اعجاز تھا۔ کہ انھوں نے اپنے دور کے فرعون کا اس طرح مقابلہ کیا کہ وہ اپنے لاؤ لشکر سمیت دریا میں غرق ہو گیا اور اس کی لاش آج بھی عبرت کا نشان بنی ہوئی ماسکو کے عجائب گھر میں موجود ہے۔ اقبال ؒکہنا یہ چاہتے ہیں کہ مرد مسلماں خودی کے جذبے سے سرشار ہو کر آج کے دور کے فرعونوں کا ضربِ کلیم بن کر مقابلہ کر سکتا ہے۔
"ضرب کلیم"میں "اسلام اور مسلمان"کے حصہ کی پہلی نظم"صبح " ہے دو اشعار پر مشتمل علامہ اقبالؒ کی یہ مختصر ترین نظم ان کی ان نظموں میں شامل ہے جو انھوں نے اپنے قیامِ بھوپال کے دوران کہیں۔ اس نظم کے یہ دونوں شعر کس کمال کے ہیں اور دوسرے شعر میں اقبال ؒنے بندہ مو¿من کی ایک ملکوتی صفت کو کس خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔
یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی امروز
نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا
وہ سحر جس سے لرزتا شبستان وجود
ہوتی ہے بندئہ مو¿من کی اذاں سے پیدا
اقبال ؒکے نزدیک ایک صبح وہ ہے جو معلوم نہیں کہ کہاں سے پیدا ہوتی ہے۔ لیکن وہ ایسی صبح ہے جس سے آج کی صبح آنے والی کل کی صبح بن جاتی ہے یعنی یہ ایک معمول کی صبح ہے جو سورج کے طلوع ہونے سے پیدا ہوتی ہے لیکن اس کے مقابلے میں ایک ایسی صبح بھی ہے جو بندہ مومن کی صبح کی اذان سے طلو ع ہوتی ہے اور اس صبح میں اتنا اثر ہوتا ہے کہ اس سے انسانی وجود کا ذرا ذرا ہی نہیں بلکہ پوری کائنات کا ذرہ ذرہ لرز اُٹھتا ہے، خشیت الٰہی سے کانپ اُٹھتا ہے کہ یہی اصل صبح ہے اور اسی سے سورج کے طلوع ہونے سے پیدا ہونے والی صبح مکمل ہوتی ہے۔
"ضرب کلیم" میں اسلام اور مسلمان کے حصہ کے تحت اگلی نظم لا ا لہٰ الااللہ ہے۔ سات اشعار پر مشتمل اس نظم کا کوئی کہاں مقابلہ کر سکتا ہے کہ جس کا عنوان ہی خالق کائنات کی توحید کا بیان ہے۔ اس نظم کا ہر شعر اپنے معانی، مطلب، مفہوم اور ظاہری و باطنی حسن کے حساب سے بے مثال ہے۔ اقبال ؒکی اس نظم کو خوبصورت لحن کے ساتھ گا کر بھی پیش کیا جاتا ہے۔ کچھ اشعار پیشِ خدمت ہیں۔
خودی کا سرِ نہاں لا الہٰ الا اللہ
خودی ہے تیغ، فساں لا الٰہ الا اللہ
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الٰہ الا اللہ
یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں، لا الٰہ الا اللہ
اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں!
مجھے ہے حکمِ اذاں لاالٰہ الااللہ
اقبالؒ کے نزدیک خودی کا لفظ ایک اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یا مفہوم اپنی ذات یا نفس کی معرفت اور خود شناسی ہے۔ اس خودشناسی کا بھید کلمہ توحید یعنی لاالٰہ اللہ محمد رسول اللہ میں چھپا ہے۔ لا الٰہ الا اللہ پر ایمان و یقین (مرد مسلماں ) کو ہر چیز سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ اس کے اندر وہ قوت پیدا ہو جاتی ہے کہ تمام دنیاوی سہارے اس کے سامنے ہیچ ہو جاتے ہیں۔ اقبال افسوس کے ساتھ اس حقیقت کا اظہار کرتے ہیں کہ دنیا ایک صنم کدے یا بُت خانے کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ کفر، شرک، مادہ پرستی اور اسی طرح کی دوسری برائیاں عام ہو چکی ہےں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کی صفات سے بہرمند ہو کر کوئی شخص (حضرت ابراہیم ؑ اللہ کے جلیل القدر پیغمبر اور جد انبیا تھے ان جیسا تو کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا)دورِ حاضر کے تمام بتوں کو خواہ وہ وہم و گماں کے ہوں، شرک و الحاد کے ہوں، بُت پرستی کے ہوں، مال و دولت کی پوجا کے ہوں، فریب کے ہوں، یا عقل و خرد کے نام پر زمانے اور دنیا کی پوجا کے ہوں تو لا الٰہ الااللہ پر ایمان و یقین کی قوت سے مٹا سکتا ہے۔ اقبالؒ کہتے ہیں کہ لا الٰہ الااللہ کا کلمہ کسی بہار یا خزاں یا پھولوں کی فصل کا پابند نہیں۔ یہ سرمدی اور لافانی نغمہ (کلمہ) ہے جو کائنات میں گونج رہا ہے مجھے (اقبالؒ کو) احساس ہے کہ میری قوم نے مختلف طرح کے بتوں کو اپنی آغوش میں لے رکھا ہے لیکن مجھے کلمہ حق بلند کرنا ہے اور میں لا الٰہ الا اللہ کا کلمہ بلند کرتا رہوں گا۔ (جاری ہے۔)