کبھی ہانگ کانگ کا سفر بہت ہیجان انگیز بلکہ خوف طاری کرنے والا تھا۔ اس کا پرانا ایئرپورٹ کائی ٹاک بلند و بالا عمارتوں کے درمیان واقع تھا۔ بڑا جمبوجیٹ طیارہ ایک چٹانی کھاڑی سے جس وقت ایئر پورٹ پر لینڈ کرنے کے لیے اترتا، اس وقت عموماً گہری دھند چھائی ہوتی تھی۔
خوفزدہ مسافروں کو بادلوں کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا، پھر اچانک طیارہ گہرے بادلوں سے نکلتا جو کہ ایئرپورٹ پر چھائے ہوتے تھے، دائیں اور بائیں طرف اپارٹمنٹس جن کی بلندی طیارے کی برابر لگتی تھی، ان کی چھتوں پر سکھانے کے لیے لٹکائے گئے کپڑوں کی قطاریں دکھائی دیتیں۔ 747جمبو طیارہ بھاری دھمک کے ساتھ ایئرپورٹ پر لینڈ کرتا، جس کے سامنے اپارٹمنٹس کی طویل قطار دکھائی دیتی۔ میرے جیسے تواتر کے ساتھ ہوائی سفر کرنے والے کے لیے بھی یہ دل تھام لینے والا تجربہ ہوتا تھا۔ کائی ٹاک ایئرپورٹ کو ہم لوگ خود کش ایئر پورٹ کہا کرتے تھے، جبکہ حیران کن بات یہ ہے کہ وہاں صرف ایک طیارہ کریش ہوا تھا۔ 1998ء میں کائی ٹاک ایئرپورٹ بند کر دیا گیا، اس کی جگہ نئے کشادہ ایئر پورٹ چیک لیپ کوک نے لے لی جو کہ کہیں زیادہ کشادہ ہے، اور ہانگ کانگ انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے نام سے معروف ہے۔ یہ ایئرپورٹ جلد ہی ایشیا میں ہوابازی کا ایک بڑا مرکز بن گیا۔
گزشتہ ہفتے ہانگ کانگ ایئرپورٹ کا ہزاروں نوجوان مظاہرین نے محاصرہ کر لیا تھا، وہ چین کی جانب سے حوالگی کا قانون مسلط کرنے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اس قانون کے تحت بیجنگ کو اختیار حاصل ہو گا کہ ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہانگ کانگ کے شہری گرفتار کر سکے۔ ہانگ کانگ کے سابق نوآبادیاتی حکمران برطانیہ نے چین کے ساتھ جس ڈیل پر دستخط کئے تھے، اس میں دو ریاستیں ایک قوم کا مطالبہ کیا گیا ہے، اس ڈیل کے تحت ہانگ کانگ کو قابل ذکر خودمختاری حاصل ہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ چین پر کڑی گرفت رکھنے والے حکمران ہانگ کانگ پر اثر و رسوخ کم کرنے کے قانون کی منسوخی کی اجازت دے دیں گے، تب وہ سنگین بھول کر رہے ہیں۔ ان کی نظر میں ہانگ کانگ بھی اسی طرح چین کا حصہ ہے جیسے شنگھائی؛ بلکہ تائیوان بھی۔
ہانگ کانگ میں گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری بڑے پیمانے پر مظاہروں نے بیجنگ کے کان کھڑے کر دیئے ہیں جو کہ ایک مکمل پولیس سٹیٹ ہے۔ چین کی سخت گیر قیادت کا خدشہ درست ہے کہ ہانگ کانگ کا شور و غل دیگر چینی علاقوں میں بھی شورش برپا کر سکتا ہے۔ 1970ء کی دہائی کا خونی ثقافتی انقلاب انہیں اچھی طرح یاد ہے۔ سب سے بڑھ کر چینی رہنما اپنی تاریخ کا مطالعہ ضرور کرتے ہیں، اسی سے سبق حاصل کرتے ہیں۔ اس کے برعکس امریکی سیاستدان تاریخ کے مطالعہ سے پاک ہیں، ان کی نظر میں تاریخ کا مطلب فاکس نیوز پر ایک ہفتہ چلنے والے خبریں ہیں۔ بیجنگ کو ایک بڑا دھڑکا ایک نئے تائی پنگ بغاوت کا رہتا ہے، جس میں ہانگ شیوقوان نامی شخص نے حضرت عیسیٰ کا بھائی ہونے کا دعویٰ کر کے حکمران چنگ خاندان کے خلاف کسانوں کی ایک بڑی فوج جمع کر لی تھی، جس سے 1850سے 1864 تک جاری رہنے والی خانہ جنگی میں دس کروڑ سے زائد افراد مارے گئے، بیشتر ہلاکتیں بھوک کے باعث ہوئی تھیں۔
ادھر ڈیموکریٹس پارٹی میں ایسے خوشامدیوں کی کمی نہیں جو کہ جوبائیڈن کو ماضی کی کسی مسیحی ہستی کا نیا روپ قرار دے سکتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے سابق مکین ٹرمپ کی دنیا میں پہلے ہی پہچان ان کی عجیب و غریب حرکتیں تھیں۔ چین ہانگ کانگ کے نوجوان مظاہرین کو خبردار کر چکا ہے کہ وہ پُرتشدد مظاہروں سے باز آ جائیں، وگرنہ چین کی پیرا ملٹری فورسز کو پوری طاقت کے ساتھ مداخلت کرنا پڑے گی جو کہ پیپلز لبریشن آرمی کا حصہ ہے۔ ہانگ کانگ کے سرحدی شہر شینزین میں چینی پولیس اور فوجی بڑی تعداد میں جمع ہو چکے ہیں۔ یہ شہر ہانگ کانگ سے محض چند کلو میٹر دور ہے۔
اگر ہانگ کانگ کے طلبہ بصیرت کا مظاہرہ نہیں کرتے تو ان کا انجام لاگوئی حراستی کیمپ بن سکتے ہیں، ویسے ہی کیمپ جہاں سنکیانگ کے ایغور مسلمان کثیر تعداد میں رکھے گئے ہیں۔ ہانگ کانگ کے ایئرپورٹ پر مزید کوئی مظاہرے نہیں ہوئے البتہ سڑکوں اور گلیوں میں جاری ہیں۔
اگر چینی پیپلز لبریشن آرمی یا پولیس نے ہانگ کانگ میں مداخلت کی تو تیانانمن سکوائر کی خونی کہانی دوبارہ سے دہرائی جا سکتی ہے۔ چینی فورسز نے ایک مرتبہ ہانگ کانگ میں مارشل لاء نافذ کر دیا تو اس کی خودمختاری کے دن بھی ختم ہو جائیں گے۔ تبت اور مسلم اکثریتی صوبوں میں چین کا جس طرح چین کا تسلط ہے، وہی کچھ ہانگ کانگ کا مقدر بن جائے گا اور عالمی طاقتیں کچھ بھی نہ کر سکیں گی۔ ہانگ کانگ کے بعد چین باغی صوبے تائیوان کی جانب متوجہ ہو گا، اور مغربی سیاستدان بیان بازی کے علاوہ کچھ نہیں کر پائیں گے۔
(بشکریہ: ڈیلی ہف پوسٹ)