سیاسی گہما گہمی کو دیکھتے ہوئے گمان ہوتا ہے کہ تحریک انصاف حکومت کا شائد اب چل چلاؤ ہے،مگر یہ صورتحال کچھ اچنبھے والی بات نہیں ماضی میں قوم ایسی صورتحال کا بار ہا مشاہدہ کر چکی ہے،منتخب سیاسی حکومتوں کے آخری ڈیڑھ دو سال ایسی ہی کشمکش اور چو مکھی لڑائی کا شکار رہے ہیں،اس وقت اپوزیشن کی گھن گرج پتہ دیتی ہے کہ شائد کچھ ہونے کو ہے،حکومت کی اتحادی جماعتوں نے بھی اس صورتحال میں حصہ ڈالتے ہوئے شکایات کے انبار لگا دئیے ہیں جس سے گمان ہوتا ہے کہ کہیں کوئی گڑ بڑ ضرور ہے،مگر کہاں؟ اس کا سراغ لگانا صاحبان اقتدار کی ذمہ داری ہے مگر ”کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے“ وزیر اعظم عمران خان ایک مضبوط اعصاب کے انسان ہیں،سپورٹس مین ہیں اور بد ترین حالات میں بھی کوئی امکان پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،اس لئے بہت سے لوگوں کی امید برآتی دکھائی نہیں دیتی۔
وزیر اعظم عمران خان نے کچھ عرصہ قبل اپنی کابینہ سے کہا تھا کہ اب وقت گزر گیا ہے کہ ہم یہ بہانہ پیش کریں کہ ہم نئے ہیں یا سیکھ رہے ہیں،”ڈھائی سال کا جو وقت بچا ہے اب اس میں پرفارم کرنا ہوگا“ انہوں نے کہا جب وہ حکومت میں آئے تو انہیں معاملات اور چیزوں کو سمجھنے کا مناسب وقت نہیں ملا، امریکہ کے نو منتخب صدر جوبائیڈن کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ میں سوچ رہا تھا کہ جب جوبائیڈن اپنا آفس سنبھالیں گے تو ان کی کتنی تیاری ہو گی اور اس کے مقابلے میں میری کتنی تیاری تھی،عمران خان کے مطابق ”جب انہوں نے حکومت سنبھالی تو 20 دن کا وقت بھی نہیں ملا اور ان دنوں میں بھی ہم اپنی حکومت بنانے کے لیے نمبر پورے کر رہے تھے، اقتدار میں آنے کے بعد انہیں حالات کو سمجھنے میں تین مہینے لگے“۔توانائی کے شعبے کی مثال دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ”ہمیں ڈیڑھ سال تک صحیح ڈیٹا ہی نہیں دیا گیا، اس لیے حکومت سنبھالنے سے پہلے بریفنگ ہونی چاہئے تاکہ ڈیٹا کے مطابق پالیسیز تشکیل دی جا سکیں“۔
حزب اختلاف اور دیگر کچھ حلقوں کی جانب سے یہ تنقید کی جا رہی ہے کہ وزیر اعظم نے دراصل اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی ہار تسلیم کی ہے مگر اس تناظر میں ضروری ہے کہ یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ تحریک انصاف کو حکومت چلانے میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ صوبوں میں وزیر اعلیٰ اورچیف سیکرٹری کلیدی عہدے ہوتے ہیں اور ہر صوبے میں ان دوآئینی عہدیداروں میں اعتماد کا فقدان رہا، دنیا بھر میں سیاسی جماعتوں اور حکومت کے نیچے باقاعدہ ریسرچ کرنے والے ونگ ہوتے ہیں جو لیڈر شپ کوآگاہ کرتے ہیں کہ اصل زمینی حقائق اور بڑے مسائل کیا ہیں، جس کے بعد حکومت یا سیاسی جماعتیں مسائل سے نبرد آزماہونے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں،مگر یہاں ایسی کوشش نظر نہیں آتی،گڈ گورننس کی راہ میں حائل ایک اور رکاوٹ درست ڈیٹا کا موجود نہ ہونا ہے۔،ہمارے ہاں فیصلے جس بنیاد پر ہو تے ہیں وہ بنیاد ہی غلط ہے، جو گڈ کورننس کو متاثر کرتی ہے،تحریک انصاف حکومت اور بیوروکریسی کے تعلقات کے پس منظر پر نظر ڈالیں تو مختلف واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حکومت اور بیوروکریسی کے درمیان تعلقات خوشگوار نہیں رہے یہ کشیدگی آج بھی کسی نہ کسی سطح پر موجود ہے جس کا ذکر ابھی بھی وزیر اعظم نے بالواسطہ کیا۔
اس سے پہلے بھی وزیر اعظم سمیت حکومتی نمائندگان کی جانب سے کئی مرتبہ بیوروکریسی کو ملک میں گڈ گورننس نہ ہونے کا ذمہ دار ٹھہرایا جا چکا ہے،یہی نہیں بلکہ حکومت(صفحہ4پر بقیہ نمبر1)
کے جانب سے اس کے ردعمل میں چیف سیکرٹریز سمیت کئی مرتبہ اعلیٰ افسران کو تبدیل کیا گیا،دوسری جانب بیوروکریسی میں مسلسل تقرریوں اور تبادلوں کے باعث تشویش پائی جاتی ہے،یہی نہیں بلکہ گزشتہ دو برس کے دوران وفاقی اور صوبائی سطح پر کام کرنے والے بہت سے افسران نے وزیراعظم سے حکومتی نمائندگان کے رویوں اور کام کرنے کے طریق کار سمیت یہ شکایت بھی کی کہ نیب اہلکار انہیں بدعنوانی کی تحقیقات اور تفتیش کے نام پر ہراساں کرتے ہیں،گڈ گورننس اور حالات کو کیسے بہتر بنایا جائے؟،اس معاملے پر ماہرین کا کہنا ہے سیاسی جماعتیں جب حکومت میں آتی ہیں تو وہ یہ سوچ رکھتی ہیں کہ فلاں اعلیٰ بیوروکریٹ نے ہماری حریف جماعت کے ساتھ کام کیا ہے تو شاید اب وہ ہمارے ساتھ کام نہیں کر سکتا ہے، جبکہ اصولاً سرکاری افسر کی وفاداری حکومت وقت کے ساتھ ہوتی ہے،اس لئے بیوروکریسی سے شکائت کرنا غلط ہے۔
اٹھارہویں ترمیم اور این ایف سی کے بارے میں بھی تحفظات ہیں،میری نظر میں وفاق اگر اس پر شکایت کرتا ہے اور کہتا ہے ہمارے پاس اختیارات نہیں ہیں تو یہ بات درست ہے، یہ مسئلہ اس حکومت کو ہی نہیں بلکہ آنے والی حکومتوں کو بھی درپیش ہوگا، اس لیے ترمیم کا دوبارہ جائزہ لے کر تبدیلیاں کرنے میں حرج نہیں ہے کیونکہ اگر اس سے وفاق اور صوبائی حکومتوں کے تعلقات میں بہتری آسکتی ہے تو ایسا کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہئے،قومی سیاسی جماعتوں میں سب سی بڑی خامی یہ ہے کہ وہ خود کو گورننس کے لیے تیار نہیں کرتی ہیں،جس کی وجہ سے ہم اتنے سالوں سے زیرو پوائنٹ پرہی کھڑے ہیں،سیاسی جماعتوں کی کوئی پالیسی پلاننگ بھی نہیں ہوتی ہے،کابینہ پر نظر ڈالیں تو زیادہ تر وزرا ء تجربہ کار ہیں اور گذشتہ حکومتوں کا حصہ رہے، اس کے باوجود بھی خراب کارکردگی کا ملبہ غیر تجربہ کاری پر ڈالنا مناسب نہیں،یہ سچ ہے کہ اپوزیشن حکومتی راہ میں بڑی رکاوٹ رہی،قانون سازی میں بھی روڑے اٹکائے گئے،جس کے نتیجے میں تحریک انصاف حکومت اپنے منشور پر عمل درآمد یقینی نہ بنا سکی،بیوروکریسی پر بھی بلاوجہ شک و شبہ کا اظہار کیا گیا،پالیسی پلاننگ اور ترقیاتی منصوبوں میں وزراء کی ترجیح حکومت کی ترجیحات سے مختلف رہی،اس کی وجہ تحریک انصاف میں مختلف الخیال الیکٹ ایبلز کی شمولیت تھی۔مروجہ قوانین میں موجود خامیوں کی درستی نہ کی گئی جس کے باعث مسائل الجھتے گئے،اس کی ایک وجہ اپوزیشن کا عدم تعاون بھی تھا،بنیادی مسائل کو مقامی تناظر میں حل کرنے کے بجائے یورپ سے استفادہ کرنے کی کوشش کے باعث بھی وقت ضائع ہوا اور انصاف،پولیس اصلاحات،بلدیات جیسے بنیادی مسائل کا حل ممکن نہ ہو سکا۔
اب اپوزیشن ایک بار پھر حکومت کیخلاف متحد ہو رہی ہے،پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا ہے،مشترکہ جدوجہد پر بات چیت جاری ہے،لیکن اگر یہ اتحاد حکومت گرانے کی کوشش کرے گا تو وزیر اعظم عمران خان جو مضبوط اعصاب کے مالک ہیں ان کو آسانی سے کامیاب نہیں ہونے دیں گے،بلکہ عین ممکن ہے کہ وزیر اعظم خود اسمبلیاں تحلیل کر کے قبل از وقت الیکشن کرانے کیلئے صدر مملکت کو سفارش کر دیں،اپوزیشن اپنے مقصد میں کامیاب ہو بھی گئی تو لگتا ہے کہ الیکشن سے قبل ماضی کی طرح اکٹھی نہ رہ سکے گی اور یوں میدان ایک بار پھر تحریک انصاف کے ہاتھ لگنے کا امکان موجود ہے۔