ملک میں روز افزوں مہنگائی کے باوجود حکومت منافع خوری کے خاتمے اور ذخیرہ اندوزی برداشت نہ کرنے کے بیانیے پر قائم ہے۔ قیمتوں پر کنٹرول سے متعلق ایک اجلاس میں وزیراعظم نے ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ حکومت منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی برداشت نہیں کرے گی۔ منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کا خاتمہ حکومت کا پرانا بیانیہ ہے مگر اس کے اثرات دیکھنے میں نہیں آرہے اور اشیائے خور و نوش کا بحران اور مہنگائی کا تسلسل برقرار اور قیمتوں میں من مانی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ چینی کے نرخ حالیہ ہفتے، عشرے میں 160 سے 170روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ اگرچہ یہ قیمتوں کا ایک نیا ریکارڈ ہے مگر چینی کا یہ بحران نیا نہیں ہے۔ ہر بار جب اس بحران میں شدت آتی ہے تو حکومت کچھ دن پکڑ دھکڑ اور اس قسم کے ہنگامی اقدامات سے اس مئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہے، مگر یہ مسئلہ جوں کا توں ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ حکومت کو اس وسییع تناظر میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ بحران سے نمٹنے کے لیے اس کے محرکات کا پتا چلانا ضروری ہے اور چینی کے معاملے میں اس کا جائزہ لینے کے لیے پیداوار، کھپت، ڈسٹری بیوشن کے نظام اور بازار کی حرکیات کو سمجھنا ضروری ہے، مگر ہمارے ہاں پہلے تو کسی بحران کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کیا جاتا ہے اور جب حالات تشویشناک صورت اختیار کرلیتے ہیں تو جلد بازی میں ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں جن کی دھمک تو بہت سنائی دیتی ہے مگر حقیقی اثرات کچھ بھی نہیں ہوتے۔ صرف چینی کے بحران سے نمٹنے کے لیے گزشتہ چند ماہ کی حکومتی کوششوں سے ساری حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ خوراک کے اس ضمنی جز کی طلب بھی پوری نہیں ہو پارہی اور نہ ہی بحران ختم ہونے کا نام لیتا ہے؟ ملک میں چینی کی طلب اور کھپت کے بنیادی اعداد و شمار اس مسئلے کو سمجھنے میں مدد کرسکتے ہیں۔ گزشتہ مالی سال کے دوران ملک میں تقریباً ساڑھے سات کروڑ ٹن گنا پیدا ہوا۔ گنے کی یہ مقدار 2016-17ء کے برابر تھی مگر 2016-17ء کے مقابلے میں 2020-21 ء کے دوران چینی کی پیداوار تقریباً 20 لاکھ ٹن کم رہی۔ یہ اعداد و شمار شوگرملز ایسوسی ایشن کی گزشتہ برس کی سالانہ رپورٹ میں موجود ہیں۔ چینی کی پیداوار میں اتنی بھاری مقدار میں کمی کے اسباب کیا تھے، حکومت کو اس کا پتا چلانا چاہیے تھا۔ کیا ملوں کی اجارہ داری کی وجہ سے ایسا ہوا یا اس کے کوئی دیگر اسباب تھے؟ جو بھی تھا اس کا پتا لگانا حکومت کی ذمہ داری تھی۔ ملک میں چینی کے ممکنہ بحران کو یہیں سے پرکھ لیا جاتا، اگر اس پر بروقت توجہ دی جاتی مگر ساری توجہ ڈسٹری بیوشن اور بازار کی حرکات پر مرکوز کردی گئی۔ سٹہ بازوں اور ذخیرہ اندوز مافیا سے بھی ضرور نمٹنا چاہیے مگر پانی اوپر
سے نیچے آتا ہے، اسی طرح بحران بھی۔ ملوں نے چینی کم پیدا کی تو اس کے اثرات لازمی طور پر نیچے محسوس ہوتے اور ڈیمانڈ، سپلائی کے مسائل پیدا ہوتے؛ حکومت بروقت درآمدات سے اس صورت حال پر قابو پاسکتی تھی، مگر یہاں بھی تاخیر کی گئی۔ رواں سال کے دوران ملک میں 68 لاکھ ٹن گنے کی پیداوار متوقع ہے جو گزشتہ برس کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔ مگر چینی کی کھپت کا اندازہ تقریباً ساٹھ لاکھ ٹن لگایا گیا ہے۔ کیا ملکی شوگر انڈسٹری کی پیداوار اس طلب کو پورا کرسکے گی؟ آنے والے برس سے متعلق اس بنیادی سوال پر ابھی سے توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر ان حالات میں حکومت مستقل منصوبہ بندی کی بجائے چینی کے درپیش بحران میں الجھی ہوئی ہے۔ مگر جیسا کہ کہا جاتا ہے ’کسی بحران کو ضائع مت جانے دیں‘ تو اگر اس تجربے سے مستقبل کی بہتر منصوبہ بندی کی حکمت اخذ کی جاسکی تو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ اگرچہ ماضی میں اس طرح کے حالات کو بہتر سوجھ بوجھ اور فیصلہ سازی کے لیے بروئے کار نہیں لایا جاسکا، مگر اس روایت کو تبدیل بھی کیا جاسکتا ہے۔ محض الزام تراشی کا کوئی فائدہ نہیں۔ صوبائی اوروفاقی حکومتوں کو مل کر حکمت عملی بنانا ہوگی اور ماضی کی ناکامیوں سے سبق سیکھنا ہو گا۔ جب تک اپنی کارکردگی کا بے لاگ تجزیہ نہیں کیا جاتا، سسٹم کے مسائل کی تشخیص ممکن نہیں۔ قیمتوں کے عالمی اثرات اپنی جگہ مگر ملکی سطح کے مسائل عالمی اثرات کو دو آتشہ کر رہے ہیں۔ طلب اور رسد اور قیمتوں کے مسائل کا پائیدار حل تلاش کرنے کے لیے حکومت کو پیداواری شعبے کے ساتھ بھی قریبی روابط پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حکومت ملک میں صنعتی ترقی کا عزم ظاہر کرتی ہے مگر صنعتکار طبقے اور حکومت کے مابین روابط کے بغیر ایسا ممکن نہیں۔ طلب اور رسد کے جو مسائل مہنگائی میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں ان سے نمٹنے کے لیے حکومت اور انڈسٹری میں رابطہ کاری بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ مہنگائی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے جو کوششیں درکار ہیں یہ بھی انہی کا حصہ ہے اور اس سے صنعتی اور کاروباری شفافیت کے ماحول کی ترویج کا بھی امکان ہے۔ جہاں بے ضابطگیاں پائی جائیں وہاں ضروری کارروائی ہونی چاہیے مگر ٹھوس ثبوتوں کے بغیر یہ فرض کرلینا صنعتی اور عوامی مفاد میں نہیں۔ درآمدی اجناس کے بجائے ملکی پیداوار ہی پہلی ترجیح ہونی چاہیے اور اس کے لیے لازم ہے کہ حکومت اور صنعتی شعبے میں ایک ہم آہنگی موجود ہو اور جو کچھ ممکن ہے، صنعتی سرگرمیوں میں حکومت مدد اور تعاون کرے۔
اب اگر اور تحر یر کیے گئے کالم کے عنوان کی با ت کی جائے تو صا ف نظر آ رہا ہے کہ ڈینگی بخار کا واضح طور پر بڑھتا ہوا خطرہ حکومتی سطح پر فی الفور اور سنجیدہ نوعیت کے اقدامات کا متقاضی ہے۔ اب تک ملک میں ڈینگی متاثرین کی مجموعی تعداد اٹھارہ ہزار سے بڑھ چکی ہے جبکہ یومیہ نئے مریضوں کی تعداد پانچ سو سے تجاوز کرچکی ہے اور صرف پنجاب میں اب تک اس موذی مرض سے 70 کے قریب اموات رپورٹ ہوچکی ہیں۔ صحت عامہ کے لیے اس تشویشناک صورت حال میں عوامی آگاہی، مچھروں کی تلفی اور ڈینگی سے متاثرہ افراد کے لیے بہتر طبی سہولتوں کی اشد ضرورت ہے۔ ڈینگی مچھر کی افزائش روکنے کے لیے عوامی آگاہی بنیادی کردار ادا کرسکتی ہے۔ ماضی کے برسوں میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ جب لوگوں کو اس خطرے سے بچاؤ کے لیے آگاہی فراہم کی گئی تو ڈینگی کا پھیلاؤ بہت کم ہوا۔ گھروں اور کاروباری مقامات کے باقاعدہ معائنے بھی ضروری ہیں۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران معائنے کا کام بڑی باقاعدگی سے ہوتا رہا ہے، مگر امسال اس جانب توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ جس کے اثرات بڑھتے ہوئے ڈینگی کے کیسزکی صورت میں سامنے ہیں۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ یومیہ پانچ سو کی بلند شرح سے اس میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس خطرے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ حکومتی سطح پر فی الفور اقدامات کی ضرورت ہے قبل اس کے کہ ڈینگی کا پھیلاؤ 2011ء کی طرح خطرناک صورت اختیار کرلے۔