سردار جی ننگ دھڑنگ جانگیہ (انڈر ویئر) پہنے بیری کے درخت پر چڑھ کر بیر کھا رہے تھے۔ ان کا ایک دوست نیچے سے گزرا اس نے سردار جی کو اس حالت میں دیکھ کر آواز لگائی۔ ”سردار جی کی حال اے“ سردار جی نے اوپر بیٹھے بیٹھے پر جوش لہجے میں جواب دیا۔ ”واگرو دی کرپا اے چنگا کھائی دا اے تے چنگا پائی دا اے (رب کا شکر ہے اچھا کھاتے اچھا پہنتے ہیں) پاکستانی عوام آج کل اسی دور سے گزر رہے ہیں۔ بقول احمد جاوید ”اچھی گزر رہی ہے دل خود کفیل سے، لنگر سے روٹی کھاتے ہیں پانی سبیل سے“ ملک میں بھوک اور ننگ ناچ رہی ہے۔ مہینے میں دو دو بار پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، بجلی ہر ہفتہ ہر مہینہ مہنگی، ڈالر اور چینی میں دوڑ لگی ہے کبھی وہ آگے کبھی وہ، اشیائے صرف کی قیمتیں ان کی دیکھا دیکھی بڑھ رہی ہیں۔ خلق خدا مہنگائی سے پریشان مگر شکوہ شکایت نہیں، 24 گھنٹے لبوں پر شکر کے کلمات، ”رب کا شکر ادا کر بھائی، جس نے یہ حکومت بنائی“ تنگ ہوتے تو سڑکوں پر آتے، وزیر مشیر بلکہ ڈھیر سارے ترجمان بھی اتنے مہربان اور اچھے کہ ایک وزیر نے ہمدردانہ مشورہ دیا کہ مہنگائی کا رونا رونے کے بجائے کم پہنو کم کھاؤ، کم کھاؤ کی منطق تو ایک ارب کھرب پتی وزیر نے سمجھا دی کہ دو کی بجائے ایک اور ایک کی بجائے آدھی روٹی کھاؤ لیکن کم پہننے کا مشورہ دینے والے ”حقیقی ہمدرد“ نے تفصیل نہیں بتائی، پوچھنا چاہیے تھا کہ کیا سردار جی کی طرح جانگیہ (انڈر ویئر) پہن کر دفاتر میں حاضری دیا کریں، کیسا لگے گا؟ حمام میں سارے ننگے، سیانے کہتے تھے سو بار سوچو ایک بار بولو، ہمارے وزیروں مشیروں اور ترجمانوں کی ڈیوٹی ہے کہ دن میں سو بار اپوزیشن پر تبرا بھیجو، ممکن ہوتو روزانہ کسی اچھے ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں شرکت کرو اس طرح اپنی تنخواہ اور لاکھوں کی مراعات”حلال“ کریں، صرف رات کو بستر پر لیٹ کر سوچیں، چنانچہ تین چار بھاری بھرم کم (ان کے وزن میں وزیر بننے کے بعد اضافہ ہوا ہے) مہنگائی کے ہاتھوں کچلی ہوئی قوم کو یہ کہہ کر طفل تسلیاں دیتے رہتے ہیں کہ پاکستان میں قیمتیں دنیا میں سب سے کم ہیں یہ نہیں بتاتے کہ بھارت میں ڈالر 73 روپے ہمارے یہاں 178 اس حساب سے تو بھارت میں 245 روپے لٹر ہونا چاہیے لیکن وہاں اب بھی 110 اور 113 روپے لٹر دستیاب ہے۔ امریکا میں مہنگائی کا 30 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا بحمدللہ ہم حکومت کی شبانہ روز کوششوں سے امریکا سے آگے نکل گئے ہمارے یہاں مہنگائی کا 74 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا، ایک وفاقی وزیر نے پھولے گالوں کے ساتھ منہ بھر کے کہا کہاں ہے مہنگائی، سیمنٹ، سریا ریکارڈ سطح پر فروخت ہو رہا ہے، عقل پہ ماتم، سریا، سیمنٹ خریدنے والے بینکوں سے قرضہ لے کر مکان بنا رہے ہیں، ادا کریں گے تو پتا چلے گا، طفل تسلیاں جاری، خوشحالی آئی
ایم ایف سے چل پڑی ہے آئندہ 6 سے 8 ماہ میں پاکستان پہنچ جائے گی۔ مارچ تک قیمتیں کم ہوجائیں گی۔ اپوزیشن رکاوٹ نہ ڈالتی تو خوشحالی اب تک پاکستان آچکی ہوتی، فکر نہ کریں اس کے پہنچتے ہی پورے ملک میں دودھ اور شہد کی اتنی نہریں رواں دواں ہوجائیں گی کہ دودھ اور شہد محفوظ کرنے کے لیے گیارہواں ڈیم بنانا پڑے گا۔ دراصل سارا قصور اپوزیشن کا ہے۔ خوشحالی تیزی سے بھاگتی دوڑتی آرہی تھی۔ اپوزیشن نے اڑنگی لگا دی۔ رستے میں جا بجا خندقیں کھود دیں۔ خوش حالی بے چاری کیا کرے، بھارت، بنگلہ دیش امریکا برطانیہ میں بھی مہنگائی سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ مگر اپوزیشن لیڈر اتنے بے رحم اور کٹھور ہیں کہ ٹی وی پر آکر انتہائی ناراض لہجے میں بولے ہمیں بھارت بنگلہ دیش امریکا برطانیہ کا سبق مت پڑھاؤ یہ بتاؤ کہ ملک میں مہنگائی سترہ اٹھارہ فیصد کیسے ہوگئی۔ ایک وفاقی وزیر نے تو اپوزیشن لیڈروں کو تھکے ہوئے پہلوان قرار دے دیا۔ یاد آیا ایک نامی گرامی بھولو ٹائپ کا پہلوان ایک نوجوان کو کچھ عرصہ کشتی کے داؤ سکھاتا رہا۔ نوجوان ہمارے وزیروں کی طرح ”ذہین“ تھا۔اس نے داؤ پیچ استعمال کر کے کئی کشتیاں جیت لیں، ان کامیابیوں میں بھولو پہلوان کا بھی ہاتھ تھا لیکن ایک دن اس نوجوان نے بھولو پہلوان کو چیلنج کردیا بوڑھے استاد نے اسے سمجھایا کہ ہمیں معاف کرو وہ دم خم نہیں رہا کیوں استاد کو ذلیل کرو گے مگر نوجوان اپنی طاقت کے گھمنڈ میں پاگل ہوچکا تھا مصر رہا کہ استاد تم سے ہی دنگل ہوگا۔ استاد رضا مند ہوگیا۔ مقررہ تاریخ پر دونوں لنگر لنگوٹ کس کر اکھاڑے میں اترے، ہاتھوں میں ہاتھ دیا استاد نے ایسا داؤ لگایا کہ شاگرد چاروں خانے چت خاک چاٹ رہا تھا، اٹھا اور استاد کے پاؤں پکڑ لیے کہا استاد یہ داؤ تو سکھایا ہی نہیں تھا۔ استاد نے ہنستے ہوئے کہا۔ ”بد بخت یہ داؤ اس دن کیلئے رکھا تھا“ تھکے ہوئے پہلوانوں سے ڈرنا چاہیے، جانے کون سا داؤ استعمال کر کے خاک چٹوا دیں برا بھلا کہتے ہوئے بھی رابطہ رکھو، کسی نے کہا تھا۔ ”ہم بروں سے بھی رابطہ رکھو، ہم برے وقت کام آتے ہیں“۔ اپوزیشن سے نہیں بنتی نہ بنے اپنوں سے تو سیدھے منہ بات کریں، روئے سخن کسی کی طرف ہو تو رو سیاہ، سیدھی بات ہے دوسروں کے لکھے اور فراہم کردہ اعداد و شمار پر بھروسہ کرنے اور ان کی تشریح پر زور بیان صرف کرنے کی بجائے سنجیدگی سے حقائق کا جائزہ لیا جائے کسی سیانے کے مشورے سے مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنے کیلئے اقدامات کیے جائیں۔ سوچنا ہوگا کہ پورا ملک ادھار پر چل رہا ہے، آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے عوام کی جیبیں خالی کرنا کہاں کی عقل مندی ہے۔ اپوزیشن لیڈر تھکے ہوئے پہلوان درست لیکن اپنے تازہ دم اتحادی بھی ہانپنے لگے ہیں۔ ادھر ادھر سے ریوڑ میں شامل ہونے والی بھیڑیں گھاس دیکھ کر کہیں بھی ریوڑ سے نکل جاتی ہیں۔ اتحادی مایوس ہیں۔ تجزیہ کار کہتے ہیں ق لیگ نے ناطہ توڑا تو پنجاب حکومت گئی اور متحدہ اور ق لیگ نکلی تو وفاقی حکومت کا دھڑن تختہ، دونوں مایوس، متحدہ کا یقین امید اور امید مایوسی میں بدل رہی ہے۔ پارلیمنٹ کا اجلاس موخر کرنا خالی از علت نہیں پارلیمنٹ میں دو شکستوں کے بعد خطرات منڈلانے لگے ہیں۔ ظہرانوں عشائیوں سے کیا ہو گا۔ دلپذیر تقریروں سے اتحادی مطمئن نہیں ہوں گے۔ چودھری اجلاسوں میں سوچنے سمجھنے لگے ہیں شیخ رشید کہتے ہیں کہ کوئی گیم نہیں چل رہی مگر کہیں نہ کہیں گیم چل رہی ہے۔ سمندر پر سکون ہوتا تو شیخ صاحب گیم کی بات نہ کرتے۔ اپوزیشن کے پہلوان اپنے داؤ پیچ آزمانے باہر نکلے ہیں۔ بلاول، شہباز فضل الرحمان ٹرائیکا پلس متحدہو جائے قمر زمان کائرہ اڑنگی نہ لگائیں تو گھمنڈی پہلوانوں کو خاک چٹائی جاسکتی ہے۔ اپوزیشن کے پاس مہنگائی بڑا داؤ ہے اتحادی زیادہ دیر تک عوام کی بے چینیوں پر کان بند نہیں رکھ سکیں گے۔ وہ بھی سمجھنے لگے ہیں کہ ”کوئی بچنے کا نہیں سب کا پتا جانتی ہے، کس طرف آگ لگانی ہے ہوا جانتی ہے“ بے چینی کی آگ پھیل گئی تو کم کھانے اور کم پہننے کے مشورے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔