وہ کلاس سے نکلے اور تیزی سے سیڑھیاں اترنا شروع کر دیں، میں تیز قدموں سے چلتا ہوا ان کے ساتھ شریک ہو گیا، وہ سیڑھیا ں اتر ے، پیچھے مڑکر دیکھا اور مجھے دیکھ کر ہلکی سی سمائل پاس کر دی۔ میں نے شکریہ کی رسم ادا کی اور عرض کیا میں آپ سے ایک مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے سنجیدگی کے ساتھ اپنے دونوں کان میرے حوالے کر دیے، میں نے دو تین منٹ میں اپنا مسئلہ بیان کیا، اس دوران وہ مکمل خاموشی سے سنتے رہے، میں نے آخری با ت کہی اورخاموش ہو گیا۔ انہوں نے ذرا دیر کے لیے توقف کیا، گردن نیچے جھکائی اور مراقبے میں چلے گئے، ڈیڑھ دو منٹ کے بعد انہوں نے گردن اٹھائی، میری طرف دیکھا،دوبارہ سمائل پاس کی اور بولے ”عرفان! اس بارے میں تمہیں کوئی مشورہ نہیں دے سکتا“ میں سراپا سوال بن کر ان کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا، وہ گویا ہوئے ”دیکھو مشورہ ہمیشہ اس سے کرو جو تمہارے تمام احوال سے واقف ہو، جسے تمہارے فیملی بیک گراؤنڈ سے لے کر تمہاری ذات تک کی شناسائی ہو، جو تمہاری ذات کے اونچ نیچ اور تمہاری زندگی کے نشیب و فراز سے واقف ہو، جو کسی حد تک تمہاری نفسیات سے آگا ہ، جو تمہارا ماضی بھی جانتا ہو اور تمہارے مستقبل کے عزائم بھی اس کے سامنے ہوں، اگر تم میری طرح کسی راہ چلتے انسان سے مشورہ کرو گے تو خطا کھاؤ گے۔“ میں ہمہ تن گوش ہو کر انہیں سن رہا تھا، سردیوں کی نرم دھوپ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی اور ہم اس دھوپ اور نرم و گداز کرنوں کو اپنے وجود میں جذب کرنے کی کوشش کر رہے تھے، وہ دوبارہ گویا ہوئے ”مشورے کے لیے یہ بات بھی لازم ہے کہ جس سے تم مشورہ کرو وہ متعلقہ فن اور شعبے کا ماہر ہو، یہاں میں تمہیں ایک حدیث سنانا چاہتا ہوں، ایک دفعہ محسن انسانیت کہیں تشریف لے جا رہے تھے، حضرت طلحہ ؓساتھ تھے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ایک جگہ سے گزرے جہاں کچھ لوگ کجھور کے درختوں پر چڑھے ہوئے تھے، آپ نے دریافت کیا، یہاں کیا ہو رہا ہے، آپ کو بتایا گیا کہ یہ لوگ کھجور کو پیوند لگا رہے ہیں، یعنی نر کجھو ر کو مادہ میں رکھ رہے ہیں اس سے کجھور گابہہ ہو جاتی ہے اور پھل اچھا دیتی ہے۔ آپ نے یہ سن کر تبسم فرمایا اور فرمایا کہ مجھے نہیں لگتا کہ اس سے کوئی فائدہ ہو گا۔ آپ یہ فرما کر چل دیے، کسی نے یہ بات ان صحابہ کرام تک پہنچا دی چنانچہ انہوں نے فورا عمل تر ک کر دیا۔
حضرت انس کی روایت ہے کہ رسول اکرم کا کچھ عرصہ بعد پھر ادھر سے گزر ہوا اور دیکھا کہ کھجور کے درخت پہلے کے طرح پھلدار نہیں ہیں، آپ نے دریافت کیا یہ کیا ماجرا ہے، آپ کو بتایا گیا کہ آپ نے کجھور کو گابہہ کرنے سے منع کیا تھا اس سے پھل کم ہو گیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تم اپنے دنیاوی کاموں کو مجھ سے زیادہ جانتے ہو۔ رافع بن خدیج کی روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ آپ نے فرمایا میں بھی تمہارے جیسا آدمی ہوں، میں جب دین کی کوئی بات بتلاؤں تو اس پر عمل کرو اور جب میں کوئی بات اپنی رائے سے کہوں تو آخر میں بھی تمہاری طرح ایک آدمی ہوں“ اس حدیث کی تشریح اور تاویل میں علماء نے بہت کلام کیا مگر اس سے کم از کم ہمیں یہ اشارہ ضرور ملتا ہے کہ ہمیں مشورے کے لیے متعلقہ افراد سے ہی رابطہ کرنا چاہئے۔“
وہ بات کر کے خاموش ہو ئے اورمیرے اطمینان کی کیفیت جاننے کے لیے میرے چہرے پر نظریں گاڑ دیں،میں اتنی جلدی مطمئن ہونے والا نہیں تھا، میں نے کچھ مزید وقت کی فرمائش کی اوروہ میرا ہاتھ پکڑ کر چمن کی خوبصورت راہداریوں میں چلنے لگے، میں نے عرض کیا ”سر کیا مشورے کے لیے عقل مند ہونا کافی نہیں، کوئی انسان اگر سماج میں عقلمند گردانا جاتا ہے تو کیااس سے مشورہ نہیں کیا جا سکتا؟“ انہوں نے میر ا ہاتھ چھوڑااور چمن میں رکھے بینچ پر ٹیک لگا لی، کچھ دیر توقف کے بعد گویا ہوئے ”پہلے یہ سمجھنا اہم ہے کہ عقل بذات خود کیا ہے، اس کا ماخذ و منبع کیا ہے اور یہ کیسے پروان چڑھتی ہے، کسی انسان کی عقل پر ہم کیسے، کیوں اور کب اعتماد کر سکتے ہیں۔“ گفتگو اہم اور سنجیدہ ہوتی جا رہی تھی، میں ہمہ تن گوش ہو کر سننے لگا اوروہ بولنا شروع ہو ئے ”عقل وہ قوت ہے جس سے انسان اچھے برے کی تمیز اور اشیاء میں فرق کی صلاحیت سیکھتا ہے، دوسرے لفظوں میں کسی معاملے کی منطقی تشریح اور اس سے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت کو ہم عقل کہتے ہیں اور یہ صلاحیت ہر انسان میں مختلف ہوتی ہے۔ ہر انسان کی عقل اور اس کا شعور دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور اس اختلاف کی وجوہات متعدد ہوتی ہیں۔ کہنے کو ہم اسے تکوینی امر کہہ کر جاج چھڑا سکتے ہیں مگر اس کے کچھ مادی اسباب بھی ہوتے ہیں جن پر غور کرنا ضروری ہے۔ مثلادو بھائی جو ایک ہی والدین کی اولاد اور ایک ہی گھر میں پلے بڑھے ہوتے ہیں ان کا شعور اور عقل کے درجات مختلف ہوتے ہیں،اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان دونوں کا بچپن، ماحول، درسگاہ،تصور مذہب، مطالعہ، زندگی کے تجربات اور محنت مختلف ہوتی ہے۔ آپ کا بچپن جس طرح کے ماحول میں گزرتا ہے آپ کی عقل اور شعور اسی انداز میں پروان چڑھتے ہیں، آپ جس طرح کی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں آپ کے عقل و شعور اسی چشمے سے سیراب ہو کر تناور ہوتے ہیں، آپ جن شخصیات کو پڑھتے او رجن سے تاثر لیتے ہیں آپ کے عقل وشعورکے خمیر میں ان کے افکار کی آمیزش ہوئی ہوتی ہے۔ آپ کے زندگی کے تجربات بھی آپ کے عقل و شعور کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، ایسا فرد جس نے زندگی پر سکون گزاری ہو، کبھی کسی مشکل یا مصیبت کا سامنا نہ کیا ہو، معاشی اور سماجی مسائل سے واسطہ نہ پڑا ہو اس کے عقل و شعور کا مستویٰ وہ نہیں ہو سکتا جس نے ان سب مسائل اور مشکلات کو سہا ہو، اس کی شخصیت ان مسائل و مشکلات کے بیلنے سے پس کر نکلی ہو۔ یہ وہ تمام عوامل ہیں جو کسی انسان کے عقل و شعور کی ساخت و پرداخت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔“ وہ سانس لینے کے لیے رکے، کمرکو پیچھے کی طرف دراز کیا،بینچ سے ٹیک لگائی اور دونوں ہاتھ سینے پر باندھتے ہوئے بولے ”اب میں اس بات کی طرف آتا ہوں کہ ہم کیسے، کیوں اور کب تک کسی کی عقل پر اعتماد کر سکتے ہیں،ہمارے لیے وہ عقل و شعور معتبر ہیں جن کا خمیرمعتدل ماحول، راست مطالعے، معیاری درسگاہ، میانہ تصور مذہب، جائز محنت اور درست تجربات کی بنیاد پرپروان چڑھا ہو۔اگر کسی کے عقل وشعور کی اٹھان ان بنیادوں پر نہ ہوئی ہو تو وہ قابل اعتبار نہیں اور ان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ مثلا اگر کسی کے عقل و شعور کی اٹھان مغربی تصور مذہب پر ہوئی ہے، اس کا مطالعہ اور تاثر مغربی مصنفین کی کتب اور شخصیات سے مستعار ہے اور اس کا بچپن، ماحول اور درسگاہ بھی میانہ اور معتدل نہیں تو ایسے عقل و شعور پر بھی اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔“بات کسی حد تک واضح ہو چکی تھی، انہوں نے میری طرف دیکھا اور میری باڈی لینگوئج سے اندازہ لگا کر خود ہی بولے کہ امید ہے تمہارے اطمینان کا سامان ہو چکا ہے، میں نے کندھے اچکائے اور ہونٹوں کو بھینچ کر ہاں میں گردن ہلا دی۔ سورج شہر کی اونچی بلڈنگوں سے اوپر نکل چکا تھا اور اب اس کی کرنیں تیز او ر تند محسوس ہورہی تھیں، وہ اٹھے، میں نے ہاتھ آگے بڑھایا اور اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔