حکیم الامت حضرت علامہ اقبال ؒ کے فکر و فلسفے اسلام سے ان کے لگاؤ، عشق رسول ﷺ کا تذکرہ اور مسلمانون کے شاندار ماضی اور عظمتِ رفتہ کی یاد کے جو حوالے ان کی شاعری میں موجود ہیں اور سب سے بڑھ کر ان کی شاعری میں جو ح سن، خوبصورتی اور اثر پذیری پائی جاتی ہے۔ اس کے لئے ان کی ایک انتہائی معرکتہ آلارا نظم مسجد قُرطبہ کے کچھ اشعار کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ آٹھ بندوں اور۶۴ اشعار پر مشتمل یہ خوبصورت اور بے مثال نظم ان کے دوسرے اردو مجموعہ کلام بالِ جبریل میں شامل ہے۔ اس نظم کے پہلے بند کا آخری شعر ہے۔
اول و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا
نقشِ کہن ہو کہ نوء، منزل آخر فنا
اقبالؒ اس خوب صورت انداز سے ہر مادی شے کے فنا کا ذکر کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک اول، آخر، باطن، ظاہریا کوئی نیا نقش ہویا پرانا سب فانی ہیں اورسب کو فنا ہے لیکن کمال کی بات ہے کہ اقبالؒ اسی نظم کے دوسرے بند کے پہلے شعر میں جو بات کہہ رہے ہیں وہ کچھ اس سے ہٹ کر ہے وہ کہتے ہیں کہ کچھ نقش ایسے بھی ہیں جن کو فنا نہیں اور یہ نقش وہ ہیں جنہیں کسی اللہ کے نیک بندے، کسی مرد خدا یا مرد مومن نے اُبھارا یا مکمل کیا ہو:
ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام
جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام
مرد خد ا کے نقش کو اقبالؒ اس لیے ثبات کا حامل قرار دیتے ہیں کہ مرد خدا کا عمل عشق سے عبارت اور فروغ پاتا ہے اور عشق یا عشق حقیقی وہ وصف ہے جس پر موت حرام ہے۔
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام
عشق صرف اتنا کچھ ہی نہیں کہ اس پر موت حرام ہے اور اسے ثبات حاصل ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہے اور سب کچھ ہے۔
عشق دم ِ جبریلؑ، عشق دل مصطفیٰؐ
عشق خدا کا رسولؐ، عشق خدا کا کلام
حرم قرطبہ (مسجد قرطبہ) کو عشق حقیقی کا مظہر قرار دیتے ہوئے اقبالؒ کہتے ہیں کہ اے حرم قرطبہ تجھے اگر یہ مقام حاصل ہے کہ تو کتنی صدیاں گزرنے کے باوجود قائم دائم ہے تو اس کی وجہ بھی عشق ہی ہے۔
اے حرم قرطبہ! عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام، جس میں نہیں رفت و بود
رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف صوت
معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود
اقبالؒحرم قرطبہ کی عظمت، بڑائی، شان اور تقدیس بیان کرتے ہوئے تھوڑا سا تذکرہ اپنے ذوق و شوق، عقیدت اور نبی پاکﷺ کے حضور ہدیہ درود و سلام پیش کرنے کا کرتے ہیں۔ وہ تیسرے بند کے آخری دو اشعار میں کہتے ہیں:
کافر ہندی ہوں میں، دیکھ مرا ذوق و شوق
دل میں صلوٰۃ و درود لب پہ صلوٰۃ و درود
شوق مری لے میں ہے، شوق مری نے میں ہے
نغمہ اللہ ہو، میرے رگ و پے میں ہے
اقبالؒ ایک بار پھر حرم قرطبہ کی تعریف و توصیف اور حرمت کو چوتھے بند کے اشعار میں جہاں بیان کرتے ہیں وہاں وہ مرد مسلمان کی عظمت کا بھی تذکرہ کرنا نہیں بھولتے وہ کہتے ہیں:
تیرا جلال و جمال، مرد خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل، تو بھی جلیل و جمیل
تیرے در و بام پر وادی ایمن کا نور
تیرا منار بلند جلوہ گر جبرئیلؑ
مٹ نہیں سکتا کبھی مرد مسلماں کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سر کلیم ؑو خلیلؑ
پانچویں بند میں بھی اقبالؒ بندہ مومن (مرد خدا/مرد مومن) کی صفات اور عظمت کا تذکرہ جاری رکھتے ہیں وہ ایک بار پھر انتہائی خوب صورت اور لاجواب ترکیبات اور تشبیہات استعمال کرتے اور حرم قرطبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
تجھ سے ہوا آشکار بندہ مومن کا راز
اس کے دنوں کی تپش، اس کی شبوں کا گُداز
ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کار کشا، کار ساز
عقل کی منزل ہے وہ، عشق کا حاصل ہے وہ
حلقہ آفاق میں گرمی محفل ہے وہ
اقبالؒ حرمِ قرطبہ کی تعریف و توصیف کے ساتھ صدیوں قبل اس کو تعمیر کرنے والے عرب شہسواروں جنھوں نے ہسپانیہ (سپین و پرتگال) کو فتح کیا تھا کا تذکرہ کس خوب صورت انداز اور بے مثال ترکیبات و تشبیہات کے ساتھ کرتے ہیں:
کعبہ ارباب فن! سطوت دین مبیں
تجھ سے حرم مرتبت اندلسیوں کی زمیں
آہ وہ مردانِ حق! وہ عرب شہسوار
حامل ِ خُلقِ عظیم، صاحبِ صدق و یقین
جن کے لہو کے طفیل آج بھی ہیں اندلسی
خوش دل و گرم اختلاط، سادہ و روشن جبیں
اسی بند کے آخری شعر میں اقبالؒ اندلس کی سر زمین کو مسلمانوں کی عظمت ِ رفتہ کا امین قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:
بوئے یمن آج بھی اس کی ہواؤں میں ہے
رنگ حجاز آج بھی اس کی نواؤں میں ہے
اقبال ؒ اس کے ساتھ ہی سپین کے عیسائی حکمرانوں کی طرف سے مسجد قرطبہ کو نمازیوں کے لیے بند کرنے اور وہاں آذان کی ممانعت کاحسرت بھر ا ذکر ساتویں بند کے پہلے شعر میں اس طرح کرتے ہیں:
دیدہ انجم میں ہے تیری زمیں، آسماں
آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں
اقبالؒ کو یہاں پر وہ عرب شہسوار وہ عشق حقیقی میں ڈوبے ہوئے قرونِ اولیٰ کے مسلمان مجاہدین یاد آتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ وہ قافلہ سخت جان
اسی بند کے آخری شعر میں اقبالؒ اندلس کی سر زمین کو مسلمانوں کی عظمت ِ رفتہ کا امین قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:
بوئے یمن آج بھی اس کی ہواؤں میں ہے
رنگ حجاز آج بھی اس کی نواؤں میں ہے
اقبال ؒ اس کے ساتھ ہی سپین کے عیسائی حکمرانوں کی طرف سے مسجد قرطبہ کو نمازیوں کے لیے بند کرنے اور وہاں اذان کی ممانعت کاحسرت بھر ا ذکر ساتویں بند کے پہلے شعر میں اس طرح کرتے ہیں:
دیدہ انجم میں ہے تیری زمیں، آسماں
آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں
اقبالؒ کو یہاں پر وہ عرب شہسوار وہ عشق حقیقی میں ڈوبے ہوئے قرونِ اولیٰ کے مسلمان مجاہدین یاد آتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ وہ قافلہ سخت جان کدھر چلا گیا کن وادیوں میں کھو گیا ہے عشق بالاخیز کے اس قافلہ سخت جان کی اشد ضرورت ہے کہ ہر جگہ مسلمان ظلم و ستم کا شکا ر ہیں اور انہیں قافلہ سخت جان کا انتظار ہے:
کونسی وادی میں ہے،کونسی منزل میں ہے
عشق بالاخیز کا قافلہ سخت جان!
نظم "مسجد قرطبہ" کے آٹھویں بند کا یہ شعربھی بے مثال ہے کہ اس میں اقبالؒ کسی اور زمانے کا خواب دیکھ رہے ہیں وہ زمانہ مسلمانوں کے ماضی کا اور ان کی عظمت رفتہ کا زمانہ ہو سکتا ہے اور وہ زمانہ ان کے مستقبل کا ہو سکتا ہے کہ جب انہیں ایک بار پھر ماضی کی طرح عظمت رفتہ، شان اور عزت حاصل ہوگی۔اقبالؒ دریا " داد الکبیر "جس کے کنارے پر قرطبہ کا شہر آباد ہے اور قریب ہی مسجد قرطبہ بھی واقع ہے کو مخاطب کرکے کہتے ہیں:
آب روانِ کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب