نواز شریف نے قطری شہزادے کے خطوط سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا

نواز شریف نے قطری شہزادے کے خطوط سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا
کیپشن: فائل فوٹو

اسلام آباد:سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے قطری شہزادے کے خطوط سے لاتعلقی کا اظہار کر دیااور کہا کہ میر انام کہیں کسی بھی دستاویز میں نہیں۔احتساب کمرہ عدالت میں واجد ضیاء کے بیانات پر بھی نواز شریف نے اعتراضات اٹھائے جبکہ خواجہ حارث سے سوال نامے پر مشاورت بھی کی۔

تفصیلات کے مطابق العزیزیہ سٹیل مل ریفرنس آخری مراحل میں داخل ہوچکا ہے اورنواز شریف نے مزید 45 سوالات کے جواب احتساب عدالت میں جمع کرادئیے۔ سابق وزیراعظم نے اپنے تحریری بیان میں کہا جلا وطنی کے دوران نیب نے غیرقانونی طریقے سے خاندانی رہائش گاہ تحویل میں لی۔صبیحہ عباس اور شہباز شریف کے نام جائیداد کے کاغذات بھی قبضے میں لے لئے۔

رمضان اور چودھری شوگر ملز کو مذموم مقاصد کے تحت کام کرنے کی اجازت دی گئی۔دونوں شوگر ملز سے نکلوائی گئی رقم واپس بھی نہیں کی گئی جبکہ یہ بڑی دردناک کہانی ہے۔نواز شریف نے یوا ے ای سے آنے والا ایم ایل اے کاجواب حقائق کے برعکس قراردیا۔مزید کہا کہ جے آئی ٹی کے د س والیم محض ایک تفتیشی رپورٹ ہے۔ نوازشریف کی احتساب عدالت آمد پر بدنظمی نظر آئی ، صدیق الفاروق قائد سے ہاتھ ملانے کی جلدی میں توازن کھو بیٹھے اورسیڑھیوں سے گر گئے۔


سابق وزیراعظم نواز شریف نے العزیزیہ ریفرنس میں بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ 1999 میں مارشل لاءکے نفاذ کے بعد شریف خاندان کے کاروبار کا قبضے میں لیا گیا ریکارڈ آج تک ایجنسیوں نے واپس نہیں کیا۔ لوکل پولیس اسٹیشن میں اس حوالے سے شکایت بھی درج کرائی لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔


نواز شریف نے احتساب عدالت کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں کہا کہ 1999 کے مارشل لاء کے بعد ہمارے کاروبارہ کا ریکارڈ قبضے میں لیا گیا اور اس حوالے سے شکایت بھی درج کرائی لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔


نواز شریف نے کہا 'جج صاحب ہمارے ساتھ یہ صرف 1999 میں نہیں ہوا، یہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے اور ہمارے خاندان کی درد بھری کہانی ہے۔


سابق وزیراعظم نے کہا کہ 1972 میں پاکستان کی سب سے بڑی اسٹیل مل اتفاق فاؤنڈری کو قومیا لیا گیا۔ کسی نے نہیں پوچھا کہ کھانے کے پیسے بھی آپ کے پاس ہیں یا نہیں۔
نواز شریف نے کہا 'میں تو 1972 میں سیاست میں بھی نہیں تھا جبکہ میں نے 80 کی دہائی میں سیاست شروع کی۔
گزشتہ روز سماعت کے دوران نواز شریف نے 50 میں سے 44 سوالات کے جواب دیے جس کے بعد انہیں مزید سوالات دیے۔ احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیراعظم سے مجموعی طور پر 151 سوالات پوچھے گئے ہیں۔