1999 میں مارشل لاء کے بعد کاروبار کا تمام ریکارڈ ایجنسیاں لے گئیں تھیں: نواز شریف

 1999 میں مارشل لاء کے بعد کاروبار کا تمام ریکارڈ ایجنسیاں لے گئیں تھیں: نواز شریف
کیپشن: گزشتہ روز نواز شریف نے 44 سوالات کے جواب دیے اور انہیں مجموعی طور پر 151 سوالات کے جواب دینے ہیں۔۔۔۔۔۔۔فائل فوٹو

اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف نے العزیزیہ ریفرنس میں بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ 1999 میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد شریف خاندان کے کاروبار کا قبضے میں لیا گیا ریکارڈ آج تک ایجنسیوں نے واپس نہیں کیا۔ لوکل پولیس اسٹیشن میں اس حوالے سے شکایت بھی درج کرائی لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کر رہے ہیں۔ آج مسلسل دوسرے روز نواز شریف اپنا بیان قلمبند کرانے عدالت آئے اور چند سوالات کے جواب دینے کے بعد روانہ ہو گئے جب کہ عدالت نے سہہ پہر دو بجے انہیں دوبارہ طلب کر لیا۔

گزشتہ روز نواز شریف نے 44 سوالات کے جواب دیے اور انہیں مجموعی طور پر 151 سوالات کے جواب دینے یں۔

آج سماعت کے آغاز پر نواز شریف نے احتساب عدالت کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں کہا کہ 1999 کے مارشل لاء کے بعد ہمارے کاروبارہ کا ریکارڈ قبضے میں لیا گیا اور اس حوالے سے شکایت بھی درج کرائی لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

نواز شریف نے کہا 'جج صاحب ہمارے ساتھ یہ صرف 1999 میں نہیں ہوا، یہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے اور ہمارے خاندان کی درد بھری کہانی ہے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ 1972 میں پاکستان کی سب سے بڑی اسٹیل مل اتفاق فاؤنڈری کو قومیا لیا گیا۔ کسی نے نہیں پوچھا کہ کھانے کے پیسے بھی آپ کے پاس ہیں یا نہیں۔

نواز شریف نے کہا 'میں تو 1972 میں سیاست میں بھی نہیں تھا جبکہ میں نے 80 کی دہائی میں سیاست شروع کی۔

گزشتہ روز سماعت کے دوران نواز شریف نے 50 میں سے 44 سوالات کے جواب دیے جس کے بعد انہیں مزید سوالات دیے۔ احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیراعظم سے مجموعی طور پر 151 سوالات پوچھے گئے ہیں۔

سوال و جواب کے دوران نواز شریف نے اپنی قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر پر ایک مرتبہ پھر استثنیٰ مانگا اور کہا کہ قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں کی جا سکتی۔ آئین کے آرٹیکل 66 کے تحت قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کو استثنیٰ حاصل ہے۔

یاد رہے کہ احتساب عدالت نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی سماعت کر رہی ہے۔ اس سے قبل احتساب عدالت نے انہیں ایون فیلڈ ریفرنس میں 11 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

 سابق وزیراعظم کے خلاف ٹرائل مکمل کرنے کے لیے فاضل جج ارشد ملک کو سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی ڈیڈ لائن 17 نومبر کو ختم ہورہی ہے۔

احتساب عدالت کی جانب سے ٹرائل کی مدت میں ساتویں بار توسیع کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کا بھی امکان ہے۔