ڈھاکہ :اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگست سے لے کر اب تک میانمار چھوڑنے والے پانچ لاکھ کے قریب روہنگیا پناہ گزینوں کو بنگلہ دیش میں شدید خطرات لاحق ہیں۔ ایک خاتون نے خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کیسے انھیں جسم فروشی کے لیے تیار اور مجبور کیا گیا۔
روہنگیا ۔مہاجر خواتین کو جسم فروشی پر مجبور کیا جانے لگا
اپنے چہرے پر ایک گلابی سکارف لپیٹے 21 سالہ حلیمہ نے مجھ سے اکیلے میں بات کرنے کی رضامندی ظاہر کی۔جب ہم بنگلہ دیش میں داخل ہوئے ہمیں ایک کیمپ میں لے جایا گیا جہاں ایک مقامی بنگلہ دیشی شخص نے ہمیں کھانا کھلایا۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس کی بیوی وفات پا گئی ہیں اور اس کے دو بچے ہیں۔ اس نے کہا کہ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔
حلیمہ نے کہا کہ اس نے اس شخص کا اعتبار کر لیا اور اس کے ساتھ کوکس بازار میں اس کے گھر چلی گئیں۔جب میں گھر پہنچی تو مجھے سات آٹھ اپنی جیسی نوجوان لڑکیاں نظر آئیں۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا۔ اس گھر میں اس شخص نے مجھے کئی مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے پر مجبور کیا۔حلیمہ نے بتایا کہ وہ اس گھر میں دو ماہ تک رہیں اور اس گھر کی نگران ایک بنگلہ دیشی عورت تھی۔
حلیمہ تین ماہ قبل شمالی رخائن میں فسادات سے بچنے کے لیے بنگلہ دیش آئی تھیں۔ انھیں نہیں معلوم کہ ان کی فیملی کہاں ہے اور وہ اپنے ہمسائیوں کے ساتھ پناہ کے لیے آئی تھیں۔روہنگیا مسلمان پناہ گزینوں میں سے نصف سے زیادہ بچے ہیں۔ روہنگیا پناہ گزین میانمار کی فوج اور مقامی بدھ شدت پسندوں کی جانب سے تشدد سے بچنے کے لیے بنگلہ دیش منتقل ہورہے ہیں۔
حلیمہ نے بتایا کہ وہ اس گھر میں دو ماہ تک رہیں اور اس گھر کی نگران ایک بنگلہ دیشی عورت تھی۔مجھے تیار کیا جاتا تھا، میک اپ کرایا جاتا تھا۔ کبھی کبھی ایک ہی رات میں تین سے چار مرد آتے تھے۔ میرے لیے بہت مشکل ہو گیا تھا اور کئی روز تک میرا خون بہتا رہتا تھا۔‘
اس دوران انھیں تین وقت کے کھانے کے علاوہ کوئی معاوضہ نہیں دی گئی۔
ایک شام ایک ایسا مرد اس گھر پر آیا جو بعد میں حلیمہ کی مدد کرے گا۔ ’یہ شخص ایک پولیس اہلکار تھا جو جنسی تعلقات کے لیے وہاں آیا تھا۔ مگر میری کہانی سننے کے بعد اس نے مجھے اپنی بہن پکارا۔ وہ رات بھر رکا لیکن اس نے کچھ نہیں کیا بلکہ اس نے مجھے اپنا موبائل نمبر دیا۔
نوجوان حلیمہ کو پناہ کے لیے نقل مکانی کرتے وقت ایسی زندگی کی توقع نہیں تھی ۔وہ کہتی ہیں کہ وہ پانچ وقت کی نماز اور گھر والوں کے ساتھ مل کر کھانا کھانے والی زندگی کو لوٹنا چاہتی ہیں۔ ’مجھے میانمار میں اپنے گھر کی زندگی واپس چاہیے۔