نگاہ اٹھاکر ذرا سری لنکا کے حالات ملاحظہ فرمائیے۔ بدترین معاشی بحران، سیاسی چپقلش اور ضدم ضدا کے ہاتھوں کولمبو میں کرفیو لگا دیا گیا۔ مارو، پکڑو، گھیراؤ جلاؤ کا سماں ہے۔ بجلی بحران، خوراک، ادویہ، ایندھن کی شدید کمی۔ مار ڈالنے والی مہنگائی نے ملک بھر میں حکومت مخالف مظاہرے اٹھ کھڑے ہوئے۔ 51 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں پر دیوالیہ پٹ جانے کا اعلان کردیا۔ ایمرجنسی نافذ کرکے فوج کو پکڑ دھکڑ کا لامنتہا اختیار دے دیا گیا۔ وزیراعظم مستعفی ہوگئے۔ یہ صورت حال ہمارے لیے آئینہ ہے۔ ملک بچانا اہم تر ہے یا کرسی، کرسی کھیلنا۔؟ وہ کرسی جس کی ساری چولیں انہی ہاتھوں نے ڈھیلی کرکے ملک کو حال سے بے حال کیا ہے، اس پر بیٹھنے کے دلدادگان باری باری مظلومیت کی سیاہ چادر اوڑھ کر سینہ کوبی، مرثیہ خوانی شروع کردیتے ہیں۔ ’مجھے اگر نکالا‘ کی دھمکیوں سے ’مجھے کیوں نکالا‘ تک کی گردان۔ اور اب تو عمران خان بیانیے سے مارے غضب کے، خون کی بو آ رہی ہے۔ عمران خان نے اپنے لانے والوں کے چھکے چھڑا دیے۔ ملک غرقابی اور دیوالیے کی طرف بڑھنے لگا تو انہیں: ’اس لیے نکالا!‘ غیرمتوقع طور پر اقتدار چھن جانے نے انہیں باؤلا کردیا۔ ان کی حقیقی صلاحیت تو پاکستان کے نظریے، تاریخ، جغرافیے سے نابلد ہڑبونگی کرکٹ کی تماشائی نسل کے لشکر اٹھا کھڑا کرنے کی ہے۔ سوشل میڈیا ہو یاجلسے۔ دشت تو دشت تھے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے، کا ایک نیا نرالا چلن ہے جو کبھی ہم نے اپنے دیوانے ڈراؤنے خوابوں میں بھی نہ سوچا تھا۔ انصافی بریگیڈ دھرنے میں پیدا ہوئی۔ ڈی جے کے سُروں میں پارکوں میں مخلوط میوزیکل شوز میں پلی بڑھی۔ بڑے ’منظم طریقے‘ سے کرین لیے بلاروک ٹوک قومی اداروں پر چڑھ دوڑتے (پارلیمنٹ، پی ٹی وی ہیڈکوارٹر)، بربادی پھیلاتے قانون کی دھجیاں اڑاتے بوتل سے یہ جن برآمد ہوا۔ اب ایک مرتبہ پھر بڑے شہر جام کرنے کا منصوبہ، ٹویٹری فوج سڑکوں پر چڑھا لانے کا عزم، ایک طوفانِ بدتمیزی ہے جو ہر باشعور انسان کو متوحش کیے دے رہا ہے۔ عجب طرفہ تماشا ہے کہ باوجودیکہ رمضان بھر کون سی دینی حد ہے جو توڑی نہیں گئی، مگر اچھے بھلے باشرع نمازی چند کھوکھلے نعروں کے سحر میں آنکھیں بند کیے سرنیوڑائے فسق وفجور میں ڈبکیاں کھانے والے ہجوموں کے ہمراہ اندھا دھند چلے جا رہے ہیں۔
متاعِ دین ودانش لٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا جلوۂ خوں ریز ہے ساقی!
رمضان کی مقدس ساعتوں میں، مغفرت اور نجات طلب عشرے کی ڈٹ کر بے حرمتی کی گئی۔ اسلام آباد کے مرکزی F-9 پارک میں بڑی اسکرینیں نصب کرکے مساجد میں تراویح اور گھروں میں خواتین کا تراویح، نماز پڑھنا ان کی تقاریر، موسیقی اور نعروں نے دوبھر کردیا۔ مسجد نبویؐ میں ہرزہ سرائی نے شرم سے سر جھکا دیے۔ہر ذی ہوش خوف اور غم سے لرزاں وترساں رہا، مگر ’ریاست مدینہ‘ کے جھوٹے دعوؤں کی قلعی ناسمجھوں پر نہ کھلی۔ اسلاموفوبیا پر بیان بازی سے کیا دنیا بدل گئی؟ یہودی، مودی سب دبک گئے؟ فلسطین، کشمیر، مغربی ممالک میں اسلاموفوبکوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی! او آئی سی کانفرنسوں کی بات کیا کرنا۔ آج تک اس ادارے نے امت کو کیا فیض پہنچایا؟ افغانستان، عراق، یمن، شام، برما، مالی۔ ہر جا اجڑتے مسلمانوں پر کبھی دو سطری بیان بھی دیا تو ہم نے اسے احسان سمجھا۔ سعودی عرب، امارات میں بنتے مندر، چڑھتی بے راہ روی کے بیچ رلتے امت کے مسلمان! اچھے بھلے سیانوں کو مکباً علی وجھہ… منہ اوندھائے (بھیڑ چال) چلتے دیکھنا اس بے راہ رو ہجوم میں زیادہ تکلیف دہ ہے۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا!
بات یہ نہیں ہے کہ نئی حکومت والے دودھ کے دھلے ہیں۔ زرداریوں سے توقع کہ وہ ملک کو مالامال کردیںگے؟ تو یہ دیوانے کا خواب ہے۔ سندھ، کراچی بالخصوص، عروس البلاد کا اجاڑ سامنے ہے۔ نہ ہی ملک کے گھمبیر مسائل سیٹوں، گورنریوں، صدارتوں کے غم میں روٹھی روٹھی جماعتوں کے بس کی بات ہے۔ شہبازشریف کا یہ کہنا کہ ’امریکا سپر پاور ہے بگاڑ نہیں سکتے‘ غلامی کا متعفن بیانیہ ہے۔ عمران خان کی بڑھکیں اپنی جگہ کذب وافترا تھا۔ یہ فدویت اب تو یوں بھی نہیں جچتی کہ ہمسایہ نہتی قوم نے اسی سپر پاور کو بدترین ذلت سے دوچار کیا۔ رہے ہم تو امریکا کے حوالے سے… بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا، کی بدترین تصویر بنے 20 سال کفر کی چاکری پر گزارے۔ وہ ڈوموریہ خود ڈوب گیا مگر ہم سے راضی ایک دن نہ ہوا۔ آزاد خودمختار قوم کے شایانِ شان نہ ہیٹ والے ہیں نہ بیٹ والے! سپریم پاور اللہ سے بگاڑتے تو دونوں کو خوف نہیں آتا۔ پاکستان معجزے سے بنا تھا۔ معجزوں پر چلا۔ ہم نے بڑی محنت سے دو ٹکڑے کردیا۔ اللہ نے اسے ایٹمی پاور بناکر کھڑا کردیا! اب ہم بلوچستان میں شورش کے حوالے سے جہاں کھڑے ہیں وہ ایک بھاری چیلنج مزید ہے، (کراچی دھماکا اس کی شدت کا مظہر ہے جو حالات
کی سنگینی ظاہر کرتا ہے۔) مگر کرسی طلب جتھوں کو اس کی فکر کہاں۔؟ اودبلاؤ کی ڈھیریاں ہیں مفادات طلب، اس کے سوا کچھ نہیں۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اودبلاؤ، دریاؤں کے کنارے رہنے والا مچھلی خور جانور ہے۔ یہ دوپہر تک دریا سے مچھلیاں پکڑ کر ڈھیریاں لگاتے ہیں۔ ہر ایک ان میںسے ایک ڈھیری کے آگے بیٹھ جاتا ہے۔ مگر اس خیال میں کہ حصے برابر نہیں لگائے سب اٹھ کر لڑنے لگتے ہیں (پارلیمانی طریق پر!)، مچھلیاں ملاکر پھر ڈھیریاں لگاتے ہیں۔ یہی ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ کوئی شکاری ان کا شور سن کر آ جاتا ہے اور انہیں بھگاکر مچھلیوں پر قبضہ کرلیتا ہے۔ سو اس وقت تو اس شور شرابے میں ہم سہمے بیٹھے ہیں کہ کوئی شکاری نہ آن ٹپکے۔ معجزوں کی کہانی آگے بھی چل سکتی تھی مگر جو کچھ رب تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے مبارک مہینے میں ہو گزرا ہے اس پر کس منہ سے معجزے مانگیں۔ اب تو آگ برساتا سورج، پگھلتے گلیشیئر، مظاہر فطرت بھی رو دیے، پھٹ پڑے ہماری کج روی، نافرمانی اور فسق وفجور پر۔ اور قوم ہے کہ اس کے احساس وادراک تک سے قاصر، صم بکم عمی فھم لایرجعون۔ کی تصویر بنی ہے۔ (یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں یہ اب نہ پلٹیںگے۔) قساوتِ قلبی میں پتھروں کی مانند بلکہ ان سے بھی گئے گزرے۔ ہر طرف سیاسی معاشی سماجی سموگ (دھواں بھری دھند) کا سماں ہے۔ ناقابل بیان، ناقابل تحریر مغلظات پر مبنی زبانی وبیان ہی ماحولیاتی سماجی آلودگی کا سامان نہیں، اخلاق وکردار کا ہمہ پہلو دیوالیہ پٹ رہا ہے۔ 14 سال کی بچیوں کے گھروں سے بھاگ کر راہ چلتوں سے نکاح کرکے خاندان اجاڑ ڈالنے کا رویہ۔ شوبز، میوزک، نشہ، فارم ہاؤسز، جعلی تعلیم، (کورونا زدہ آن لائن جعلی ڈگریاں، کھوکھلی تعلیم) کھا لے پی لے جی لے ناچ لے، بھری معاشرت۔
سرکاری دفاتر میں نکمے پن، صفر کارکردگی، رشوت ستانی کا دور دورہ ہے۔ دائیں ہاتھ کو خبر نہیں کہ بایاں ہاتھ کیا کر رہا ہے۔ ڈگمگاتی حکومتوں، سیاسی گھڑمس کے بیچ عوام چیونٹیوں کی طرح پس رہے ہیں۔ عوام کو کاغذوں، درخواستوں، فائلوں میں الجھاکر ہلکان کردینے والا فرسودہ، بوسدہ متعفن نظام۔ افسران سبز نمبر پلیٹ گاڑیوں میں شاہانہ کروفر سے سجے دفاتر میں فرعونیت سے چند گھنٹے گزارنے آتے ہیں۔ عملے کا کام انہیں عوام سے بچاکر رکھنا ہوا کرتا ہے۔ سو صاحب سدا میٹنگ میں ہوتے ہیں۔ ایک دستخط طلب کاغذ لیے سائل سیڑھیاں چڑھتا ہلکان ہوا خوار وزار کیا جاتا ہے۔ پرسانِ حال کوئی نہیں۔ سردار صاحب کی جوؤں کی مانند، کہ جو باربار بنیان اتار پہن رہے تھے۔ کسی نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے (پنجابی میں) کہ ’جوئیں ہیں، میں نے انہیں دوڑا دوڑا کر مار ڈالنا ہے۔‘ سوگورا جاتے ہوئے ہمارے افسران کو اس منصب پر بٹھا گیا کہ عوام کو دوڑاتے ہلکان کردو کہ وہ نہ دیکھیں حکومتی کارکردگی کیا ہے! ہمارے ہاں دعائیں یہ سکھائے جانے کی ضرورت ہے کہ اللہ تمہیں ہسپتال، تھانے، کچہری، سرکاری دفاتر کے پھیروں سے محفوظ رکھے۔ ان کے پھیر میں ڈالے جانے سے زیادہ مہلک بددعا بھی دوسری نہیں! یہ حالات اب استغفار طلب اور سجدہ طلب ہوچکے ہیں۔ یہ حقائق سورۃ النجم کی آخری آیات کی سی تنبیہی کیفیت کے حامل ہیں: ’اب کیا یہی وہ باتیں ہیں (قرآن) جن پر تم اظہار تعجب کرتے ہو؟ ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو؟ اور گا بجاکر انہیں ٹالتے ہو؟ جھک جاؤ اللہ کے آگے اور بندگی بجا لاؤ۔‘ (59-62) یاد رہے کہ کفار قرآن سے توجہ ہٹانے کے لیے زور زور سے گانے لگ جاتے۔ (ہم نے کیا مختلف کیا رمضان میں؟) ان آیات کا تاثر اتنا شدید تھا کہ: ’وہاں موجود مسلمانوں کے ساتھ کفار بھی سجدے میں گر گئے۔‘ (بخاری)
وہ سجدہ گزارو سرِ شامِ ہستی
چھپے آستیں میں سبھی بت گرا دو