دبئی :فیس بک نے 2018 میں سری لنکا میں ہونے والے مسلم مخالف فسادات میں فرقہ وارانہ بدامنی میں اپنے کردار پر معافی مانگ لی۔
ایک ٹی وی رپورٹ کے مطابق تحقیقات کے بعد انکشاف ہوا کہ فیس بک پر نفرت انگیز مواد، تقریر اور افواہوں کے بعد مسلمانوں کے خلاف پرتشدد واقعات میں غیرمعمولی اضافہ ہوا۔
خیال رہے کہ سری لنکا میں 2018 میں فسادات برپا ہوئے تھے اور فیس بک پر مسلم مخالف نظریات کی وجہ سے حالات گھمبیر ہوگئے تھے جس کے بعد حکومت نے ہنگامی صورتحال نافذ کرتے ہوئے ملک میں فیس بک تک رسائی بند کردی تھی۔تفتیش کاروں کا کہنا تھا کہ فیس بک پر نفرت انگیز مواد کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف پرتشدد واقعات نے جنم لیا۔
فیس بک نے بلومبرگ نیوز کو ایک بیان میں کہا کہ ہم اپنے پلیٹ فارم کے غلط استعمال کی مذمت کرتے ہیں، ہم انسانی حقوق کے اصل اثرات کو تسلیم کرتے ہیں اور ان کے لیے معذرت خواہ ہیں۔خیال رہے کہ 2018 کی بدامنی میں کم از کم 3 افراد جاں بحق اور 20 زخمی ہوگئے تھے، اس دوران خاص طور پر بدھ مت اکثریتی علاقے سینالسی میں مساجد اور مسلم کاروبار کو نذرآتش کردیا گیا تھا۔بدھ مت اکثریتی ملک سری لنکا کی 2 کروڑ 10 لاکھ آبادی کا 10 فیصد حصہ مسلمانوں پر اور 7.6 فیصد مسیحی افراد پر مشتمل ہے۔
انسانی حقوق کے ادارے کی جانب سے تحقیقات کے لیے خدمات حاصل کی گئی جس کے آرٹیکل ون کے مطابق فیس بک پر نفرت آمیز تقاریر اور افواہوں کے باعث تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔تحقیقات کے مطابق فیس بک نے فسادات سے قبل اپنے پلیٹ فارم سے متنازع اور افواہوں پر مبنی مواد کو ہٹانے کے لیے کچھ نہیں کیا جس کے نتیجے میں نفرت انگیز بیانات کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔
حکام نے بتایا کہ 2018 میں فیس بک پر مسلمان مخالف گروہوں نے مشترکہ حملوں کی منصوبہ بندی کی اور اس وقت فیس بک انتظامیہ کی جانب سے صرف دو لوگ مواد کی نگرانی کے لیے مختص تھے۔
آرٹیکل ون کے مطابق سری لنکا میں 44 لاکھ یومیہ فعال صارفین ہیں۔علاوہ ازیں رپورٹ میں بتایا گیا کہ فیس بک انتظامیہ نے اقرار کیا کہ انہوں نے گزشتہ 2 برس میں متنازع مواد کی روک تھام کے لیے غیرمعمولی اقدامات اٹھائے ہیں۔
فیس بک انتظامیہ نے بتایا کہ ہم نے سری لنکا میں ایک سے زائد شیئر ہونے والے مواد کی ترسیل کو روکا ہے جو زیادہ تر جھوٹ پر مبنی تھا۔علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ سری لنکا میں فیس بک کی جانب سے متعدد ملازمین کو بھی بھرتی کیا گیا ہے۔
#/S