اسلام آباد: توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی وارنٹ گرفتاری منسوخی کے لیے درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔ عمران خان کی طرف سے خواجہ حارث پیش ہوئے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں اس کا ورک ایبل سلوشن نکالوں گا تاکہ کورٹس کا وقار بھی برقرار رہے اور تصادم سے بھی بچ جائیں ۔
سماعت کے دوران خواجہ حارث نے عدالت سے کہا کہ وہ ذاتی طور پر عدالت کو یقین دہانی کرواتے ہیں کہ عمران خان 18 مارچ کو سیشن جج کی عدالت میں پیش ہو جائیں گے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالتوں کی عزت اور وقار بہت اہم ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ قانون سب کے لیے برابر نہ ہو۔ ہمارے لیے بہت ضروری ہے کہ قانون سب کے لیے یکساں ہو۔
اس موقع پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ انھوں نے ٹرائل کورٹ سے کہا تھا کہ پہلے کچھ معاملات پر انھیں سُنا جائے لیکن ان کی درخواست مسترد کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ وہ وارنٹ گرفتاری جاری کرے گی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وارنٹ دوبارہ جاری ہونے کا ایشو نہیں کیونکہ عدالت نے کہا تھا کہ عمران خان 13 مارچ کو پیش ہوں ورنہ وارنٹ بحال ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ کیس جو بھی ہو مگر ملزم کا عدالت میں پیش ہونا ضروری ہے۔
اگر کسی بھی کریمنل کیس میں سمن جاری ہوں تو کیا عدالت پیش ہونا ضروری نہیں؟‘ چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ’اگر ایک آرڈر ہو گیا تو وہ کاالعدم ہونے تک موجود رہتا ہے، عمل ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مجسٹریٹ کی عدالت ہو یا سپریم کورٹ، فیصلوں پر عمل ہونا چاہیے۔ ’ہمارے آرڈرز دستخط کے ساتھ جاری ہوتے ہیں ہمارے پاس مسل مین نہیں جو جا کر طاقت دکھائیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ریمانڈ کا آرڈر ہمیشہ سیشن کورٹ میں جاتا ہے اور اس لیے کہ ذمہ دار مجسٹریٹ ہوتا ہے۔ اس کیس میں تو ریمانڈ بھی نہیں ہونا، صرف گرفتار کر کے پیش کرنا ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ حکومت عمران خان کو پیشی سے چار دن پہلے گرفتار کر کے کہاں رکھے گی؟ عدالت نے پھر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو روسٹرم پر طلب کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اگر 18 مارچ کو بھی عمران خان نہیں آئے تو خواجہ صاحب پر تو چارج فریم نہیں ہو گا۔
سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے عدالت کے سامنے کہا کہ ریلیف درخواست گزار کو ملنا ہے اور اس کا کنڈکٹ عدالت کے سامنے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے بھی اسی طرح کی ایک یقین دہانی کروائی گئی تھی اس وقت بھی ہائیکورٹ آ کر وارنٹ معطل کروائے گئے مگر عمران خان پھر پیش نہ ہوئے۔
خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ لاہور میں جو ہو رہا ہے وہ بدقسمتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’لاہور میں جو کچھ ہو رہا ہے ہم کیا چہرہ دکھا رہے ہیں، ہم تو سنتے تھے کہ قبائلی علاقوں میں ایسا ہوتا ہے۔ ہم دنیا کو کیا بتا رہے ہیں کہ قانون پر عمل نہیں کریں گے۔
چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے سوال کیا کہ لاہور میں جو ہو رہا ہے وہ ٹھیک ہو رہا ہے جس پر ان کا کہنا تھا کہ جو ہو رہا ہے وہ غلط ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کے کارکن پولیس پر حملے کر رہے ہیں اور یہ ریاست پر حملہ ہے کیونکہ پولیس والے وہاں ریاست کی طرف سے ڈیوٹی کر رہے ہیں۔
جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ حملے کرنے والے بھی ہمارے ہی بچے ہیں جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ پولیس والے جو وہاں آئے ہوئے ہیں وہ بھی متاثرین میں ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا برطانیہ میں کوئی پولیس والے کی وردی کو ہاتھ لگا سکتا ہے؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمران خان کی گذشتہ انڈرٹیکنگ پر عمل ہو جاتا تو آج یہ سب کچھ نہ ہوتا۔