کچھ اپوزیشن سیاستدان ، خصوصاً نون لیگ کے کچھ رہنما اپنے مخالف سیاستدانوں و دیگر شخصیات کی جو کردار کشی کرتے رہے ہیں ، یا جو بدزبانی کرتے رہے ہیں وہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایسا سیاہ باب ہے جسے کوئی چاہے بھی فراموش نہیں کر سکتا۔ خصوصاً محترمہ بے نظیر بھٹو کے حوالے سے وہ اس وقت کے اپنے لاڈلے وزیر شیخ رشیدسے جو کچھ اگلواتے رہے ہیں وہ انتہائی شرمناک ہے۔ شیخ رشید کا کردار ہماری سیاست میںاب ایسے ’’مسخرے‘‘ کا ہے جس کی باتوں پر اتنی ہنسی نہیں آتی جتنا رونا آتا ہے۔ لوگ حیران ہیں اتنے اہم منصب پر بیٹھا ہوا یہ شخص کیسے اتنی ڈھٹائی سے جھوٹ بول لیتا ہے؟ اور پھر اس پر بھی قائم نہیں رہتا ۔ ظفر اقبال نے یہ شعر شاید اسی شخص کے لئے لکھا تھا۔ ’’جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر … آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہئے‘‘… حال ہی میں اس نے یہ بیان دے کر کہ ’’پانچ پانچ سیٹوں والے وزارت اعلیٰ کے امیدوار بنے ہوئے ہیں‘‘ ، وزیر اعظم عمران خان کے لئے شدید مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کسی ایسی ایجنسی سے سراغ لگوائیں جو وزارت داخلہ کے ماتحت نہ ہو کہ ان کا یہ وزیر ان کے خلاف کسی خاص مشن پر تو نہیں ہے؟۔ پانچ پانچ سیٹوں والے مستقبل قریب میں واقعی وزیر اعلیٰ بن گئے امید ہے سب سے پہلے کسی کے پیسوں سے مٹھائی کا ٹوکرا لے کر جو شخص مبارک دینے ان کے درپہ حاضر ہو گا شیخ رشید ہی ہو گا۔ یہ امکان یا یہ امید اس لئے پیدا ہو گئی ہے کہ شیخ رشید نے اپنے اس بیان سے تقریباً یوٹرن لے لیا ہے۔ یا اس کے ازالے کے طور پر اب کھسیانا بلا کھمبا نوچتے ہوئے یہ عرض کر رہا ہے ’’چوہدری شجاعت حسین میرے محسن ہیں‘‘۔ اس کا یہ جملہ ادھورا ہے جو پورا اس طرح ہو سکتا ہے ’’چوہدری شجاعت حسین میرے محسن ہیں اور اپنے محسنوں کو ڈسنا میری فطرت ہے، اپنی اسی فطرت کے مطابق میں تقریباً ہر حکمران جماعت میں گھسنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا ہوں‘‘۔ آج کل اس شخص کے منہ کا ’’مین ہول‘‘ کچھ زیادہ ہی کھلا ہوا ہے ۔ المیہ یہ ہے ہم اپنے وزیر اعظم عمران خان سے یہ بھی نہیں کہہ سکتے اس مین ہول پر کوئی ڈھکنا رکھوائیں کیونکہ ان کے اپنے حالات بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ کاش اتنے اہم منصب پر بیٹھے ہوئے ان لوگوں کو احساس ہوتا کیسی کیسی گندگی ان مین ہولوں سے نکل کر سیاسی تعفن میں اضافہ کرتی چلی جا رہی ہے۔ پانچ پانچ سیٹوں والوں کو وزارت اعلیٰ کے امیدواری کا طعنہ دینے والا وفاقی وزیر اگر سوچ لیتا وہ خود ایک سیٹ کا مالک ہے اور اس کا اصل مالک بھی کوئی اور ہے تو ایسی بات وہ ہرگز نہ کرتا جس سے ایک اتحادی جماعت کا اشتعال مزید بڑھ جاتا اور وہ حکومت سے الگ ہونے کا سنجیدگی سے سوچنے لگتی۔ کسی وزارت میں کسی قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ یہ وفاقی وزیر آج تک نہیں کر سکا۔ہاں اگر ’’لوٹا سازی‘‘ کی کوئی وزارت ہوتی اور اس کا وہ وزیر ہوتا کارکردگی کے لحاظ سے وہ پہلے نمبر پر ہوتا۔ اپنے رویے اور کردار سے وزیر اعظم عمران خان کو مخالفین کے لئے جو بدزبانیاں ماضی میں اور حال میں بھی کرتے رہے ہیں وہ سب کو معلوم ہے ، ہر موقع پر اس کی بھرپور مذمت بھی ہم کرتے رہے ۔ البتہ پیپلز پارٹی کا رویہ اس حوالے سے ذرا مختلف رہا ہے۔ اس جماعت میں بہت ہی کم لوگ ایسے ہیں جو اپنے مخالفین کو گندے القابات سے نوازتے ہوں۔ ان کے نام بگاڑتے ہوں ، یا ان کی عورتوں پر جملے کستے ہوں۔ مولانا فضل الرحمن کی سیاست سے ہزار بار اختلاف کیا جا سکتا ہے، میں کبھی ان کے سیاسی کردار کا حمایتی نہیں رہا، مگر انہوں نے یا ان کی جماعت کے کسی رہنما نے آج تک اپنے کسی سیاسی مخالف کا نام نہیں بگاڑا ۔ سیاست میں بدزبانی اور کردار کشی کے کلچر کو نون لیگ نے متعارف کروایا۔ بلکہ یہ کہا جائے توبے جا نہ ہو گا نون لیگ اس کو بانی تصور کی جاتی ہے۔ افسوس اب یہ بیڑا ہمارے خان صاحب (وزیر اعظم) نے اٹھا لیا ہے۔ جس طرح ہمارا یہ خیال تھا وزیر اعظم بننے کے بعد وہ ہر شعبے میں مثبت تبدیلیاں لائیں گے ، اس طرح ہم اس یقین میں مبتلا تھے وزیر اعظم بننے کے بعد اپنے منصب کے شایان شان باتیں ہی وہ کیا کریں گے۔ ان کے رویے اور کردار سے گندی سیاست ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن ہو جائے گی۔ افسوس جس طرح اور کسی شعبے میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی، بلکہ یہ کہا جائے زیادہ مناسب ہو گا ’’تبدیلی، ’’تباہی‘‘ بنی ہوئی ہے ، اس طرح سیاست میں بدزبانی کے کلچر کو اس قدر انہوں نے فروغ دیا کہ اپنے مقابلے میں ہر سیاستدان کو انہوں نے پیچھے چھوڑ دیا۔ اس کا اثر یہ ہوا جن سیاستدانوں سے بدزبانی کی کسی صورت میں بھی توقع نہیں کی جا سکتی تھی وہ بھی تقریباً خان صاحب جیسی بدزبانی پر اتر آئے۔ میں یہ کہنے میں ذرا عار محسوس نہیں کرتا بلکہ موجودہ حکمران اعظم کی قربت کی وجہ سے شرمندگی محسوس کرتا ہوں کہ بدزبانی اور گالی کے کلچر کو جتنی جدت اور فروغ موجودہ حکمرانوں نے دیا شاید ہی اور کسی نے دیا ہو گا۔ کچھ سابقہ حکمرانوں کی تو شناخت ہی یہی تھی بلکہ ان کی فطرت ہی یہی تھی ان سے گلہ ہم کیا کریں۔ ہمیں تو گلہ اپنے ’’محبوب وزیر اعظم ‘‘ سے ہے جو پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کی باتیں کرتے نہیں تھکتا۔ جو رحمت العالمین اتھارٹی قائم کرنے کو اپنے ایک بڑے کارنامے کے طور پر پیش کرتا ہے وہ جب اپنے سیاسی مخالفین کے لئے بدزبانی کرتا ہے ، انہیں غلط القابات سے نوازتا ہے۔ ان کے لئے توہین آمیز جملے بولتا ہے، ان کی نقلیں اتارتا ہے ہمیں شرم آتی ہے کیسے احمق شخص کی برس ہا برس ہم حمایت کرتے رہے ، پھر اس کا خمیازہ بھی بھگتتے رہے۔ کیا بات بات پر مختلف آیات کا حوالہ دینے والا یہ حکمران اعظم ان آیات کے بارے میں نہیں جانتا جو قرآن پاک کی سورۃ الحجرات میں ہیں؟ ان کا ترجمہ ہے ’’آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القابات سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے جو لوگ اس روش سے باز نہ آئے ظالم ہیں‘‘۔ اس سورۃ کی ایک اور آیت مبارک ہے ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائے ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں‘‘۔ اپنے دوست وزیر اعظم سے بس اتنی گزارش ہے اپنی کچھ خرابیوں سے نجات حاصل کر لے یا پھر پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کی باتیں یا مذاق بند کر دے !!