جس زمانے میں نامور شاعر اور دردمند دانشور انور مسعود اورینٹل کالج کے شعبۂ فارسی میں ایم اے کر رہے تھے، ایک دن پروفیسر وزیر الحسن عابدی نے چپراسی کو چاک لانے کو کہا کہ تختۂ تحریر پر کسی علمی نکتے کی وضاحت مقصود تھی ۔ سادہ دل چپراسی جب بہت سے چاک جھولی میں ڈالے کمرے میں پہنچا تو انور مسعود کی رگِ ظرافت پھڑکی اور انھوں نے چپراسی کی جھولی کی طرف عابدی صاحب کو متوجہ کرتے ہوئے پوچھا : سر! دامنِ صد چاک اسی کو کہتے ہیں؟ اسی ایک واقعے سے محبی انور مسعود کی ذہانت اور ذکاوت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس ذہانت ، ذکاوت اور ظرافت کی جوت جگاتے اس شاعرِ شہیر کو ایک جُگ بیت چکا۔ اس سال نومبر میں انور مسعود ستاسی برس کے ہو جائیں گے۔ دعا ہے کہ صحت و عافیت کے ساتھ صد و سی سال جیئیں۔ اور ہاں قارئین کو یہ بتانا بھی بے محل نہ ہوگا کہ حضرت، اقبال سے ایک دن پہلے پیدا ہوئے تھے یعنی ۸ نومبر کو !
انور مسعود کو شعر و ادب کی لوبڑھاتے اور تیز کرتے کم و بیش ستّر برس ہو گئے۔ سنجیدہ شاعری کے دوش بدوش ظریفانہ شاعری میں بھی نام کمایا بلکہ سنجیدہ شاعری سے کہیں بڑھ کر ۔ ان کی متعدد اردو پنجابی نظمیں اور سیکڑوں شعر زبان زدِ خاص و عام ہیں۔ وہ اردو کے واحد شاعر ہیں جنھوں نے ماحولیات کے قتل پر ایک پورا شعری مجموعہ ’’میلی میلی دھوپ‘‘ تخلیق کیا۔ اس سیّارے پر ماحول کی تباہی پر انھوں نے جابجا اپنے حزن و ہول کا اظہار کیا ہے۔ اردو دنیا میں اپنی مقبولیت کے باعث آج وہ جس مقام پر فائز ہیں شاید ہی کوئی معاصر شاعر ان کا حریف ہو ۔
پچھلے برس انور مسعود کے قطعات کی کلیّات بک کارنر جہلم کے زیراہتمام شائع ہوئی ہے، خوبصورت اور دیدہ زیب۔ ساڑھے پانچ سو صفحات سے متجاوز اس کلیات میں حیرت انگیز تنوع ہے۔ موضوعات کی ایسی کثرت اور بیان کا ایسا سلیقہ اردو کے قطعاتی ادب میں کم کم دیکھنے کو ملے گا۔ انور مسعود کو زبان و بیان پر حاکمانہ قدرت حاصل ہے ۔ اردو ، فارسی اور پنجابی پر ان کا تسلط قاری کو اس قدر حیرت میں ڈالتا ہے کہ وہ پلک جھپکنا بھول جاتا ہے، مژہ برہم مزن نانشکنی رنگِ تماشا را ۔ یہ قطعات مختلف اخباروں نوائے وقت اور مشرق وغیرہ میں چھپتے رہے اور اب ایک طویل عرصے سے روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہو رہے ہیں۔ ان قطعات کی موضوعاتی رنگا رنگی کا ایک سبب تو خود شاعر کی شخصیت کی کثیرجہتی اور علم اور مشاہدے کی وسعت ہے، دوسرا بڑا سبب اخبارات ہیں جن میں سیاسی، سماجی ، اقتصادی اور ہنگامی موضوعات کی ایک چکرا دینے والی دنیا آباد ہوتی ہے اور شاعر سے تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ ان موضوعات میں سے حسب دلخواہ انتخاب کر کے اسے ’’قطعے‘‘ کی ایک سانس کی صنف میں سمو دے۔ انور مسعود نے ایسا ہی کیا ہے اور اپنی ایجاز بیانی سے ان موضوعات کو جیتی جان کر دیا ہے۔
قطعات کے اس ضخیم مجموعے میں وطنِ عزیز کی سماجی ناہمواریوں ، تعلیمی آشوب، اہل سیاست کے دوغلے پن، تضادات، حاکموں کی کشکول برداری، سودائے حکمرانی، نام نہاد موروثی جمہوریت ، احتجاجی ریلیوں ، مہنگائی کے عفریت ، ورلڈ آرڈر ، معاشی
استحصال اور بین الاقوامی ڈکیت مالیاتی اداروں، آف شور کمپنیوں کے شور و شر ، لاٹھی اور گاجر کے دوغلے امریکی کھیل، قومی زبان اردو سے اہل اقتدار کی افسوسناک بے اعتنائی ، مغرب کی اسلام دشمنی ، آئین کی پامالی اور ان جیسے دیگر بہت سے موضوعات کو مزاح کی شکر میں لپیٹ کر یا پھر طنز کے تیکھے نشتر کی باریک نوک پر رکھ کراس خوبی سے بیان کر دیا ہے کہ شاعر کی کرشمہ کاری اور قدرتِ کلام کو خراجِ توصیف پیش کیے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔
قارئین کرام! آپ کو یہ بتانا بے محل نہ ہوگا کہ قطعات کے پیش نظر ضخیم مجموعے کے شائع ہونے سے تقریباً پینتیس برس پہلے قطعات ہی کا ایک چھوٹا سا مجموعہ ’’قطعہ کلامی‘‘ کے نام سے بھی شائع ہوا تھا۔ اپنے اس مجموعے کے آغاز میں انور مسعود نے اپنا ایک فارسی شعر بھی درج کیا تھا جس میں ایک گہرا نفسیاتی نکتہ بیان کیا تھا۔ شعر یہ تھا:
جز بہ خندیدن برایم چارۂ دیگر نماند
سخت مشکل بود انور درد پنہاں داشتن
(میرے لیے اپنے درد کو چھپانا سخت مشکل کام تھا سو میرے پاس سوائے ہنسنے کے کوئی چارۂ کار نہ تھا!) جی ہاں، شدید دکھ درد کو سہارنے کا یہ بھی ایک نفسیاتی حربہ ہے اور کامیاب مزاح کے بارے میں یہ ایک عام خیال ہے مگر حد درجہ درست کہ یہ آنسوؤں اور قہقہوں کے سنگم پر جنم لیتا ہے۔
انور مسعود کا ایک کمال یہ ہے کہ وہ اپنے ان چار مصرعی قطعات کی عنوان بندی بھی بڑی ذہانت سے کرتے ہیں۔ ایسے چند جالب توجہ عنوانات دیکھیے: بیچ اس مسئلے کے، اردوئے محلہ، پردے میں رہنے دو، کچراچی، موذی مودی، جہلِ عالمانہ، تین ہی کافی ہیں، بے قائمی ہوش و حواس، قہر در قاہرہ، لیلیٰ کی ماں مجنوں سے، ان فراموش ایبل، لاری میں لارا، کربِ کبیرہ، اُوں ہُوں، اعجازِ عجز، جگنو اور بانس وغیرہ ۔
اب انور مسعود کے چند دلچسپ، خندہ آور ، شفتگی آمیز اور برجستہ قطعات ملاحظہ کریں اور ساتھ ہی ساتھ بعض عنوانات کی ندرت بھی نظر میں رہے:
کلچرڈ:
ذرا سا سونگھ لینے سے بھی انور /طبیعت سخت متلانے لگی ہے / مہذب اس قدر میں ہو گیا ہوں/کہ دیسی گھی سے بو آنے لگی ہے!
اردوئے محلہ:
بہت لا ضروری ہے معلوم کرنا/ وہ رسّہ تڑا کر کدھر کو گئی ہے/اِدھر چین سے آپ بیٹھے ہوئے ہیں/ اُدھر بھینس مدِّ نظر ہو گئی ہے۔
بیچ اس مسئلے کے :
جوہے اوروں کی وہی رائے ہماری بھی ہے/ ایک ہو رائے سبھی کی یہ کچھ آسان نہیں/ لوگ کہتے ہیں فرشتہ ہیں جنابِ واعظ/ ہم بھی کہتے تو یہی ہیں کہ وہ انسان نہیں ۔
اس قطعے کے بعد کے دو مصرعے ایک بے مثل فارسی شعر کی یاد دلاتے ہیں جس کا انور مسعود نے گویا ہو بہو سلیس اردو ترجمہ کر دیا ہے ۔ شعر یہ ہے:
؎ واعظ شہر کہ مردم ملکش می خوانند/ قول ما نیز ہمین است کہ او آدم نیست
(لوگ واعظِ شہر کو فرشتہ کہتے ہیں۔ ہمارا کہنا بھی یہی ہے کہ وہ انسان نہیں!)
ذیابیطس:
بڑی پرہیز کی طالب ہے یہ شوگر کی بیماری/یہ میٹھی چیز کے نزدیک بھی جانے نہیں دیتی/ خدا محفوظ رکھے اس کے تخریبی رویّے سے /یہ کھا جاتی ہے بندے کو اسے کھانے نہیں دیتی۔
فوائد:
عمر کے بڑھنے سے کیا کیا فائدے حاصل ہوئے/ کس قدر تھے مسئلے ہم جن سے بے غم ہو گئے/ اب نہ کنگھی کی ضرورت ہے نہ ہے ٹوتھ برش کی/کتنے اخراجات تھے جو خود بخود کم ہو گئے۔
انسان حواس میں نہ ہو تو بعض اوقات جملوں کی ساخت کا شعور کھو بیٹھتا ہے اور اسے لفظوں کے باہمی تعلق اور تقدیم وتاخیر کا ہوش نہیں رہتا ۔ ذرا دیکھیے انور مسعود اس صورت حال کو کیسا مضحک پیرایہ عطاکرتے ہیں اور عنوان بھی تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ کیسا با معنی قائم کرتے ہیں: ایسے تصرفات اعلیٰ درجات کی ذہانت کے بغیر کہاں ممکن ہیں؟
بے قائمیِ ہوش و حواس:
لوگ کہتے ہیں یمن ہے وہ گہر کا لیکن /اس کو دیکھا تو وہ موتی کا بدخشاں نکلا/صرف محفل میں تھا انور کا بجانا فرما/اک وہی شخص تھا جو مرد کا میداں نکلا۔
پدر تمام کند:
بھینس رکھنے کا تکلف ہم سے ہو سکتا نہیں/ ہم نے سوکھے دودھ کا ڈبّا جو ہے رکھا ہوا/ گھر میں رکھیں غیر محرم کو ملازم کس لیے /کام کرنے کے لیے ابّا جو ہے رکھّا ہوا۔