پاکستان کی سیاست ایک لاحاصل بحث ہے مگر یہ بحث اب تمام گلی کوچوں کی زینت ہے اور اس میں سب سے زیادہ خشوع و خضوع سے وہ شامل ہوتے ہیں جنہیں کارِ جہاں میں کوئی دلچسپ نہیں ہوتی لیکن اس کا فائدہ یہ ہے کہ ذہنی دباؤ اور فشارِ خون میں کمی آجاتی ہے۔ خبر یہ ہے کہ نوزائیدہ سیاسی جماعت استحکام پاکستان پارٹی نے اگلے الیکشن میں بھرپور حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس پارٹی کے ارکان کی اکثریت ہندو عقیدے آواگون پر عمل پیرا ہے کہ ہر انسان دنیا میں سات دفعہ جنم لیتا ہے ایک جنم کے خاتمے پر جب اس کا دنیاوی کردار ختم ہوتا ہے تو وہ دوسرا جنم لے کر نئے کردار کے ساتھ پھر جلوہ گر ہو جاتا ہے یہی سیاست ہے ویسے بھی پاکستان کی سیاسی روایات میں پارٹی بدلنا مذہب بدلنے کے مترادف نہیں سمجھا جاتا۔ فیصل آباد سے ہمارے حلقے کے اہم این اے نے اپنی سیاست کا آغاز پی پی پی سے کیا۔ پھر وہ ن لیگ میں آ گئے۔ مشرف دور میں وہ ق لیگ کا حصہ تھے وقت بدلا تو انہوں نے تحریک انصاف جوائن کر لی اب وہ یہ پارٹی چھوڑ چکے ہیں اور اگر ن لیگ نے انہیں تجدید وفا کا موقع نہ دیا تو استحکام پاکستان پارٹی ان کے لیے ایک آئیڈیل جماعت ہو گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موصوف ایک ایک دفعہ ان ساری پارٹیوں کے ٹکٹ لے کر اسمبلی میں پہنچ چکے ہیں حالانکہ انتخابی حلقے میں انہوں نے ترقیاتی کام کرنا تو دور حلقے میں جانا بھی کبھی گوارہ نہیں کیا۔
پاکستان کی انتخابی سائنس بڑی پیچیدہ سہی لیکن ہمارے ایم این اے صاحب کا تیر کبھی خطا نہیں ہوا۔ نہ وہ خود ہارتے ہیں اور نہ ہی ان کی جوائن کردہ جماعت کبھی ہاری ہے وہ جس پر بھی ہاتھ رکھتے ہیں وہی پارٹی جیت جاتی ہے۔ استحکام پاکستان پارٹی میں سارے لوگ اسی قماش کے ہیں انہیں انتخابی سیاست اور اپنے حلقے پر عبور حاصل ہے۔ ان کی وفاداریاں صرف ایک الیکشن تک ہوتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ لوگ ہر پارٹی کی مجبوری کیوں بن جاتے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ مالی طور پر خوشحال طبقہ ہیں جن کے پاس وافر پیسہ ہے اپنے حلقے میں اس طرح کے ہر امیدوار کے پاس اوسطاً 20-25ہزار ذاتی ووٹ ہوتا ہے۔ یہ جدھر بھی جائیں گے ان کا ووٹر Fixed Deposit کی طرح ان کے ساتھ جائے گا اس لیے یہ ہر پارٹی کو اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتے ہیں اور اپنی سیٹ کی منہ مانگی قیمت وصول کرتے ہیں۔
استحکام پاکستان پارٹی کا پودا راتوں رات درخت بن چکا ہے۔ جتنی برق رفتاری سے یہ پارٹی کھڑی ہوئی ہے ہم سوچنے پر مجبور ہیں کہ انہوں نے کس دربار پر جا کر نذرانہ دیا ہے کہ ان کی کوئی دعا رد نہیں ہوتی۔ جہانگیر ترین کے دربار سے بلاوے کی
دیر تھی یہ لوگ جوق در جوق وہاں جا پہنچے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ لوگ اپنی تمام تر دولت کے انباروں اور عوامی مقبولیت کے باوجود سیاست میں ایک گداگر کی حیثیت رکھتے ہیں بقول احمد فراز
بس اس قدر تھا کہ دربار سے بلاوا تھا
گداگرانِ سخن کے ہجوم سامنے ہیں
جہاں فائدے کا امکان ہوتا ہے یہ شہد کی مکھیوں کی طرح اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ ایک طرف تو اپنے حلقوں میں انہیں روحانی پیشوا سے زیادہ تقدس حاصل ہوتا ہے مگر جب یہ شاہوں کے درباروں میں حاضر ہوتے ہیں تو سیاست کے تمام صوفی و سالک سبھی شیوخ و امام اپنے سیاسی Godfather کی چشم ابرو کے منتظر ہوتے ہیں کہ آقا آپ حکم تو کریں ہم سجدے سے سر نہیں اُٹھائیں تو پھر کہنا۔ بہرحال یہ ہماری سیاسی روایات ہیں جن کو تمام بڑی سیاسی پارٹیوں بشمول ن لیگ پیپلزپارٹی تحریک انصاف سب نے بلا امتیاز رنگ و نسل ہمیشہ پروموٹ کیا ہے۔ ق لیگ ایم کیو ایم اور اب استحکام پارٹی یہ سب قومی سیاست کی فرنچائز ہیں جو زیادہ منافع کے لیے ہر نئے الیکشن پر نیا معاہدہ کرتے ہیں۔ نہ تو سیاسی پارٹیاں Electables کی اس پالیسی کو مائنڈ کرتی ہیں اور نہ ہی ان کے ووٹرز کو اس بات سے کوئی مسئلہ ہوتا ہے۔
اطالوی فلاسفر میکاولی (1469-1527ء) کی کتاب The Prince جو اس کی موت کے بعد شائع ہوئی جس میں میکاولی نے اقتدار کے حصول کی خاطر دھوکہ دہی اور فراڈ کو جائز قرار دیا جدید سیاست کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے ان سیاستدانوں میں سے کسی نے یہ کتاب نہیں پڑھی مگر اس کی تعلیمات پر عملاً یہ لوگ میکاولی سے زیادہ ہوشیار ہیں بلکہ ان کو یہ کتاب پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
لاہور کی بلال گنج مارکیٹ گاڑیوں کی سپیئر پارٹس (جسے اردو میں فالتو پرزہ جات کہا جاتا ہے) کی ملک کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے جہاں ایک پیسہ ٹیکس دیئے بغیر روزانہ کروڑوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے دوسرے شہروں بلکہ دوسرے صوبوں کے کاریگر حضرات یہاں سے سامان خریدنے آتے ہیں۔ یہ فالتو پرزہ جات جب تک ان کباڑ خانوں میں پڑے رہتے ہیں ان کی کوئی وقعت نہیں ہوتی مگر ان کا چمتکار یہ ہے کہ جب انہیں راستے میں بیچ سڑک کھڑی ہوئی بریک ڈاؤن گاڑی میں فٹ کیا جاتا ہے تو وہ گاڑی چل پڑتی بلکہ دوڑنے لگتی ہے۔ اس طرح سے چند سو یا چند ہزار لگا کر گاڑی مالکان اپنی لاکھوں یا کروڑوں کی گاڑی میں سستے فالتو پرزہ جات لگا کر اپنی کھوئی ہوئی منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔
جہانگیر ترین کو یہ کریڈٹ یا ڈس کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ پاکستانی سیاست اور جمہوریت کی گاڑی کے لیے بلال گنج کی فالتو پرزہ مارکیٹ کی غیر اعلانیہ حیثیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ق لیگ اور ایم کیو ایم کا معاملہ یہ رہا ہے کہ وہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی چند سیٹیں نکال لیتے ہیں جس کے بل بوتے پر ہر حکومت کا حصہ بن جاتے ہیں لیکن جہانگیر ترین ان سے ایک قدم آگے ہیں یہ کسی بھی ورائٹی کے Electable کو اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں اس میں آزاد امیدوار بطور خاص شامل ہیں بلکہ بہت سے آزاد امید وار تو ان سے ساز باز کے بعد بطور آزاد امیدوار کھڑے ہوتے ہیں۔ اس طرح کی پارٹیاں جسے سیاسی اصطلاح میں Spoiler Party کہا جاتا ہے ان کا مستقبل روشن ہے۔ یہ لوگ ہر پارٹی کی ضرورت ہوتے ہیں۔ چونکہ یہاں نظریاتی پارٹی کوئی بھی نہیں ہے انتخابی منشور بھی سب کا ایک جیسا ہوتا ہے اس لیے پارٹی بدلنا زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ بنیادی شرط یہ ہے کہ آپ پہلے اپنی سیٹ جیت کر دکھائیں۔ آٹو گاڑی کی طرح جمہوریت کی گاڑی بھی فالتو پرزوں کے بغیر نہیں چل سکتی اور یہ فالتو پرزہ جات کی دستیابی کا ٹھیکہ ترین صاحب کے پاس ہے۔
بلال گنج مارکیٹ کی ظاہری خرید و فروخت میں بظاہر کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے لیکن جب سے فالتو پرزے مہنگے ہوئے ہیں گاڑیوں کے پارٹس کی چوری میں اضافہ ہو گیا ہے۔ پوری پوری گاڑیاں کھول کر پرزہ پرزہ کر کے بیچی جا رہی ہیں جس وجہ سے اس کاروبار کے بارے میں مضبوط رائے یہ ہے کہ یہاں پر مال مسروقہ کی خرید و فروخت ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس کاروبار کی قانونی حیثیت خاصی مشکوک ہے مثلاً ایک دوست کی گاڑی کے شیشے چوری ہو گئے وہ بلال گنج سستے شیشے لینے گئے تو مستری نے انہیں ان کے چوری شدہ شیشے آدھی سے بھی کم قیمت پر فروخت کر دیے مستری بھی خوش اور ہمارے دوست بھی خوش کہ انہیں اپنے ہی شیشے واپس مل گئے۔
ویسے چارٹر آف ڈیموکریسی جو لندن میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان 2005ء میں دونوں کی جلاوطنی کے دوران طے پایا تھا اس کی ایک اچھی اور جمہوری شرط یہ تھی کہ کوئی سیاسی پارٹی وفاداری بدلنے والے پارلیمنٹیرین کو قبول نہیں کرے گی یعنی لوٹا بننے کے امکانات کی جڑ کاٹ دی گئی تھی مگر افسوس کہ دونوں جماعتوں نے اس چارٹر کا مذاق اڑایا اور لوٹا سازی کا سلسلہ نہ صرف جاری رہا بلکہ اس کی شدت میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوا آگے چل کر تحریک انصاف میدان سیاست میں آئی تو اس روش نے ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے مگر جیسے ہی تحریک انصاف طاقت کے ایوانوں سے رخصت ہوئی اس پارٹی سے وسیع پیمانے پر اجتماعی انخلا کی قطاریں لگ گئیں گویا جمہوریت کی بقا کے لیے جو کڑوی دوائی انہوں نے تجویز کی تھی بالآخر اس کی کڑواہٹ اور Side Effects دونوں تحریک انصاف کے لیے زہر قاتل ثابت ہوئے۔