ملعونین نوپورشرما اور نوین جندال حکمران جماعت بی جے پی کے عام رہنما نہیں بلکہ ترجمان جیسے اہم عہدے پر فائز ہیں 26 مئی کو ٹی وی پروگرام میں ملعونہ نوپورشرما نے شانِ رسالت میں انتہائی گستاخانہ باتیں کیں اِس پر ملعون نوین جندال نے ٹویٹ کر دیا توہین آمیز، اہانت آمیز اور گستاخانہ گفتگو اور ٹویٹ سے مسلمانوں کے دل زخمی ہوئے ہیں مزید ستم ظریفی یہ ہوئی کہ ملعونین ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے صحافی محمد زبیر کے خلاف مقدمہ درج کر کے گرفتار کر لیا جاتا ہے جس نے گستاخانہ گفتگو اور ٹویٹ کی طرف دنیا کے مسلمانوں کی توجہ مبذول کرائی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت خود گستاخانہ واقعات کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرتی ہے تحفظِ ناموسِ رسالت تو ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم و غصہ ہے پاکستان تو عرصہ سے جنونی ہندوؤں کی ملعون سرگرمیاں اُجاگر کر رہا ہے پہلی بار ترکی سمیت عرب ممالک نے گستاخانہ واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے بھارت کی مذمت کی ہے اور اِن ممالک میں بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مُہم چل رہی ہے جس کے تحت سٹوروں سے بھارتی اشیا ہٹائی جا رہی ہیں نفرت کی اِس لہر کو کم کرنے کے لیے بی جے پی نے ملعونہ نوپور شرما کو معطل کرنے کے ساتھ ملعون نوین کمار کو جماعت سے نکالنے کا اعلان کیا ہے لیکن بادیٔ النظر میں یہ کارروائی محض ایک دھوکہ ہے اصل حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی نے دونوں ملعونین کو تھپکی دے کر حوصلہ افزائی کی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ ملعونہ نوپور شرما کے خلاف درجے مقدمے پر کارروائی کرنے کے بجائے اُسے پولیس تحفظ فراہم کر دیا گیا ہے ایسا پولیس حصار کسی مجرم کے نہیں بلکہ ایسی انتہائی اہم شخصیت کے اِردگرد قائم کیا جاتا ہے جو وی وی آئی پی ہو۔
حکومتی جماعت کے اہم عہدوں پر فائز رہنماؤں کے گستاخانہ بیانات پر ایک طرف دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل دکھی اور وہ غصے میں ہیں مگر ملعون مودی نے اِس حوالے سے چُپ سادھ رکھی ہے اور ابھی تک مذمت کا ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا یہ بھارت سمیت دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں اور مسلم ممالک کے حکمرانوں کو اشارہ ہے کہ توہین و اہانت کے اِن واقعات پر وہ شرمندہ نہیں بلکہ خوش ہیں اِس لیے احتجاج کرو یا تجارتی بائیکاٹ، اُسے کوئی پروا نہیں مسلم دنیا کے لیے ضروری ہے کہ اِس پیغام کو سنجیدہ لے اور مذمتی قراردادوں اور بیانات سے آگے بڑھ کر نہ صرف بھارت کا مکمل تجارتی اور سفارتی بائیکاٹ کیا جائے بلکہ اُس کے شہریوں کو عرب ممالک سے نکالا جائے تاکہ جنونی بھارتی حکومت کو مناسب سبق ملے۔
مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی متحرک ہو اور بھارت پر اُس وقت تک سخت پابندیاں لگانے کا متفقہ فیصلہ کیا جائے جب تک دونوں ملعونین کو تختہ دار پر لٹکا نہیں دیا جاتا بھارتی شہریوں کے مسلم ممالک میں داخلے پر پابندی عائد کی جائے قطر نے بھارت سے معافی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ ترکی، عرب امارات، بحرین اور سعودی عرب نے بھی سخت ردِ عمل دیا ہے لیکن ابھی تک بھارت کی ہٹ دھرمی میں کمی
نہیں آئی حالانکہ ایک کروڑ کے قریب بھارتی شہری عرب ممالک میں مقیم ہیں اِن عرب ممالک سے بھارت سالانہ 78 ارب ڈالر کماتا ہے جس سے بھارتی معیشت کا پہیہ رواں دواں ہے اگر عرب ممالک ایک کروڑ بھارتیوں کو ملک بدر کر دیں تو بھارتی معیشت اِس کی متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ ترسیلاتِ زر کم ہونے سے نہ صرف زرِ مبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہوں گے بلکہ روپے کی قدر میں کمی سے مہنگائی جنم لے گی اور بے روزگاری سے بھارت کا سیاسی ڈھانچہ بھی متاثر ہو گا ایک بار عربوں نے متحد ہو کر سبق سکھا دیا تو آئندہ کسی جنونی ہندو کو شانِ رسالتؐ میں گستاخی کی جرأت نہیں ہو گی کیونکہ عرب ممالک معاشی و تجارتی ہر حوالے سے بھارت کے لیے انتہائی اہم ہیں سعودی عرب اور امارات اُس کے اہم تجارتی شراکت دار ہیں صرف اِن کی طرف سے معاشی و تجارتی بائیکاٹ مودی حکومت کو زمین بوس کر سکتا ہے۔
نبیوں کی شان میں گستاخی، ناموسِ رسالتؑ پر حملہ اور اُن کی شان میں نازیبا کلمات کہنا معمولی نہیں ایک سنگین جُرم ہے ایسا جب بھی ہوا مسلمانوں کو نہ صرف سخت صدمہ ہوا بلکہ مرتکب افراد کو غازی علم دین شہید جیسے شمع رسالتؐ کے پروانوں نے کیفرِ کردار تک پہنچا دیا کیونکہ یہ ایک ناقابلِ معافی جُرم ہے اِس جرم کی سنگینی کا اندازہ اِس سے بھی ہوتا ہے کہ زمانہ نبوت کے دوران بھی مرتکب افراد کو معافی دینے کی کوئی ایک نظیر بھی نہیں ملتی پیارے آقاؐ جو رحمت العالمینﷺ بھی ہیں کی طرف سے فتح مکہ کے موقع پر سب کے لیے عام معافی کا اعلان کیا گیا لیکن اِس عام معافی کا ناموسِ رسالتؐ کی توہین کرنے کے مرتکب پر اطلاق نہ ہوا بلکہ کعبہ کی جالی تھامے عبداللہ بن خطل کو جہنم واصل کر دیا گیا بعد میں بھی جب کسی نے شانِ رسالتؐ میں گستاخی کی تو اُسے عبرت کا نشان بنانے اورکیفر کردار تک پہنچانے میں مسلمانوں نے کبھی سُستی یا کوتاہی نہیں کی کیونکہ بھارتی ایک خدا کی پرستش نہیں کرتے نہ ہی انبیا اکرامؑ کو مانتے ہیں اسی لیے گستاخی کر جاتے ہیں جس پر اِس ملک کا ناطقہ بند کرنا ہی اصل سزا ہے۔
ہر مسلمان کے ایمان کی اولیں شرط کالی کملی والے آقاؐ کو خاتم النبیین تسلیم کرنا ہے اِس کے ساتھ ہی ایمان اور دین تبھی مکمل ہوتا ہے جب ہر رشتے سے بڑھ کر پیارے نبیؐ سے محبت و احترام کیا جائے کیونکہ ناموسِ رسالتؐ کی حفاظت کے بغیر تکمیلِ ایمان ہی نہیں آپؐ شفیع محشر ہیں وہ دنیا میں سب سے اعلیٰ اور محترم ہیں اُنھیں پوری کائنات کے لیے رحمت بنا کر معبوث فرمایا گیا خالقِ کائنات نے خود آپؐ کا نام بلند کیا اور آپؐ کے ذکر کو بھی بلند کیا آپؐ کو مقامِ محمود عطا کرنے کے ساتھ آپؐ کے سامنے بلند آواز میں بولنے سے بھی منع فرمایا آپؐ کی اطاعت اور فرمانبرداری کو اللہ نے اپنی فرمانبرداری اور آپؐ کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی قرار دیا اِس لیے ہمارے پیارے نبیؐ کی شانِ اقدس میں کوئی توہین و اہانت کا مرتکب ہو تو جماعت سے باہر نکالنے کا بیان دینا کوئی سزا نہیں بلکہ ملعونین کو قرارِ واقعی سزا سے ہی مسلمانوں کی تشفی ممکن ہے عرب ممالک کا کردار کلیدی ہو سکتا ہے مگر بھارت سے تجارتی شراکت داری ختم کرنے، بھارتی شہریوں کو ملک بدر کرنے سمیت دیگر پابندیاں لگانے سے ہی جنونی مودی کا دماغ درست ہو گا۔
ابھی تک بھارتی حکومت نے اپنی جماعت کے دونوں ملعونین کی حرکت سے شرمساری محسوس کرتے ہوئے اپنا رویہ تبدیل نہیں کیا بلکہ ملک میں احتجاج کرنے والے مسلم مظاہرین پر وحشیانہ مظالم کا سلسلہ وسیع کر دیا گیا ہے ناموسِ رسالتؐ کے لیے نکلنے والے پروانوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے املاک گرانے کے ساتھ بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی جا رہی ہیں پُرامن احتجاج کو طاقت کے بل بوتے پر روکنے کے لیے مظاہرین پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے ہندو برہمن کے ہاتھوں بھارتی مسلمان کی حالت نہایت ابتر ہو چکی ہے آج سارے بھارت میں مسلمانوں کا قتلِ عام جاری ہے اُن سے شہری حقوق چھینے جا رہے ہیں تمام تر مظالم کا سامنا کرنے کے باوجود ہر مسلمان ناموسِ رسالتؐ پر قربان ہونے کو افضل ترین تصور کرتا ہے اب ہندو برہمن بھارت سے خاتم النبیینؐ کے پروانوں کا نام و نشان تک مٹا دینے کے درپے ہیں لیکن مسلم نسل کشی کے باجود مسلم حکومتوں کی طرف سے جس قسم کا سخت جواب آنا چاہیے تھا وہ ابھی تک نہیں آ رہا حالانکہ حضورؐ کی محبت ہی دنیا و آخرت میں کامیابی ہے اِس لیے مسلم حکمران معاشی و تجارتی مفادات کا تحفظ کرنے کے بجائے ناموسِ رسالتؐ کے نگہبان بنیں تاکہ روزِ محشر ساقی کوثر کی شفاعت کے حقدار ٹھہریں۔