اسلام آباد: صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ احتساب کا عمل اچھا ہے اور اسے مزید سخت کرنا چاہیے۔ اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود حکومت کا نظام نہیں رکے گا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ صدر مملکت نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن کے موقف میں فرق ہے، ایک کہتا ہے سو فیصد جھوٹ ہے اور دوسرا کہتا ہے سو فیصد سچ ہے، اپوزیشن اور حکومت کے درمیان تعمیری بات چیت ہو سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر بھی مباحثہ ہو سکتا ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے معاملہ پر اپوزیشن کے ساتھ رابطے میں رہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کرانا شفاف طریقہ ہے، اس سے بیلٹ پیپر کے ذریعہ بھی گنتی کی جا سکتی ہے اور کائونٹنگ مشین سے بھی گنتی ہو گی۔ ایسے معاملات کو آسانی سے تسلیم نہیں کیا جا سکتا جس طرح عدالتوں نے کافی عرصہ بعد ڈی این اے ٹیسٹ کوتسلیم کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا نظام اچھا ہے، ٹی وی چینلز سمیت سب کو احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، عوام کب تک جھوٹ سنے گی، اگر کسی کو سب کچھ معلوم ہو تو قوم کو گمراہ نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ فیک نیوز پوری دنیا کا مسئلہ ہے جس طرح صدر کی جانب سے امریکہ اور چین کو آم بھیجنے کی غلط خبر چلی اور جس کو بھارت نے خوب اچھالا، اپوزیشن پارلیمان میں کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔ اگر ایسا ہو گا تو پھر ٹی وی چینلز پر مباحثہ ہو گا۔
صدر مملکت نے کہا کہ اپوزیشن صرف مخالفت برائے مخالفت کر رہی ہے۔ اپوزیشن جو بھی کرے ملک چلتا رہے گا، نظام نہیں رکے گا۔ ایف اے ٹی ایف سے متعلق قانون سازی ناگزیر تھی تاہم اپوزیشن نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ آرڈیننس جاری کرنا میرا آئینی حق ہے، اگر نظام میں بہتری لانے کیلئے پارلیمنٹ سے بل منظور نہیں ہو گا تو آرڈیننس جاری کرنا پڑے گا۔ حکومت کا نظام چلنا چاہیے، اس تناظر میں آرڈیننس جاری کرنے پڑے۔ صدر مملکت نے کہا کہ ایک دن میں جو 21 بل منظور ہوئے وہ پہلے سے زیر التواء تھے، اپوزیشن کا ایوان میں رویہ سب کے سامنے ہے۔
انہوں نے کہا کہ انتخابی اصلاحات پر 2013ء سے 2018ء تک ملکر کام کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ملک بدل رہا ہے، اب کام اور نظام کو روکا جائے تو ملک رکنے کیلئے تیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وباء کے دوران حکومت پر الزام تراشی کی گئی جی ڈی پی کے اعداد و شمار کو غلط قرار دیا گیا حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ پارلیمنٹ میں میری تقریر کے دوران احتجاج کیا گیا ایوان میں کشمیر جیسے قومی معاملات پر بات کے دوران اپوزیشن کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے معاملے پر اپوزیشن سے بات چیت کیلئے تیار ہوں۔ قومی اسمبلی میں انتخابی اصلاحات سے متعلق بل منظور ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے نمائندے نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے متعلق ہر اجلاس میں شرکت کی ہے۔ الیکشن کمیشن کو اس معاملے پر ا عتماد میں لیا گیاہے، یہ مشین ہیک نہیں ہو سکتی اور نہ ہی اس کا نیٹ بند ہو گا۔ ووٹنگ ختم ہونے کے 8 منٹ بعد پولنگ بوتھ کا رزلٹ مل جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ احتساب کا عمل اچھا ہے اور اسے زیادہ سخت کرنا چاہیے، حیلے بہانوں سے کسی کو تحفظ نہیں ملنا چاہیے۔ 20 سال کی حکومتوں اور 3 سال کی حکومت میں فرق ہے اور جس نے زیادہ حکومت کی ہو گی اس سے زیادہ پوچھا جائے گا، اپوزیشن بھی بعض معاملات نیب کو بھیجنے پر زور دیتی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نیب کچھ ٹھیک کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شوگر رپورٹ پر صرف جہانگیر ترین پر مقدمہ درج ہوا کسی اور کیخلاف درج نہیں ہوا، نیب نے گزشتہ دو سال میں گزشتہ دس سال سے زائد ریکوری کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کورونا وباء پر قابو پایا ہے، معیشت میں بہتری آئی ہے، ملک میں مثبت تبدیلی آ رہی ہے، حکومت اور اپوزیشن کو مثبت کردار ادا کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو متحد کرنے کیلئے کردار ادا کرتا رہوں گا، کسی بھی رپورٹ پر آئینی راستہ اختیار کرتا ہوں، قاضی جسٹس فائز عیسیٰ کا معاملہ جوڈیشل کمیشن کو بھیجنے کا فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق کیا۔
انہوں نے کہا کہ خطے میں بدلتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں اپنی حکمت عملی تبدیل کرنا پڑتی ہے۔ افغانستان اور بھارت میں نئے ابھرتے ہوئے حالات کے تناظر میں حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے اسلاموفوبیا کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھایا، بھارت نے جموں و کشمیر میں ظلم بربریت کا بازار گرم کیا۔ ہماری حکومت نے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اٹھایا ہے، عالمی سطح پر بھی مسئلہ کشمیرپر بحث ہو رہی ہے، فلسطین میں جو کچھ ہوا ہے ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔
ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ افغانستان کے تنازعہ کے حل کیلئے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کی حمایت کی، اپنے ملک کے ہوائی اڈے کسی کو دینا احساس معاملہ ہے، توقع ہے کہ حکومت ایسا نہیں کرے گی۔ صدر مملکت نے کہا کہ میکرواکنامک کے اثرات عوام تک پہنچ رہے ہیں۔ پاکستان کی 100 صنعتوں نے دنیا میں سب سے زیادہ منافع کمایا ہے، حکومت کو مہنگائی پر قابو پانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت انتخابی عمل پر اثر انداز نہیں ہو رہی۔